ColumnM Riaz Advocate

ڈوبتے سورج کے آنسو

تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ افسران و سٹاف کے ساتھ الوداعی خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے دوران خطاب خود کو ڈوبتے سورج سے تشبیح دی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے ساتھ بطور سپریم کورٹ جج نو سال بڑے اچھے گزرے، میری حالت اب ڈوبتے سورج جیسی ہے، آپ لوگوں کا ابھی وقت پڑا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ سب اپنی بھر پور لگن سے کام کریں، ملک کو معاشی و دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ جب سب اکٹھے ہونگے تو یہ بحران نہیں رہے گا۔ کاش موصوف اکٹھے چلنے والی بات پر خود بھی عمل کرتے ۔ حالت زار یہ رہی کہ عدالتی تقسیم کی بناء پر جج کی ریٹائرمنٹ پرروایتی فل کورٹ ریفرنس بھی نہ لے سکے۔ بحیثیت چیف جسٹس، جسٹس عمر عطابندیال کا دور پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کا انتہائی متحرک مگر متنازعہ ترین دور تصور کیا جائے گا۔ بطور چیف جسٹس انکے دور میں عدلیہ کی بے توقیری میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ عدالتی فیصلوں اور جوڈیشل ڈکٹیٹر شپ کی بدولت اپنے پیشرو جسٹس منیر اور جسٹس ثاقب نثار کو پیچھے چھوڑ نے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ کہنے میں کچھ قباحت نہ ہوگی کہ اس وقت جہاں پاکستانی قوم جمہوریت، سیاست اور سیاسی جماعتوں سے متنفر ہوچکی ہے وہیں پر پاکستانیوں کے لئے عدالتوں کے لئے نفرت کا اظہار کوئی اچنبے کی بات نہیں رہی۔ انکی عدالتی ڈکٹیٹر شپ سپریم کورٹ میں واضح تفریق کا باعث بنی۔ مخصوص ججوں کو اپنا ہمنوا بنائے رکھنا اور سینئر ترین ججوں کو کھڈے لائن لگانے کی روایت نے سپریم کورٹ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ چیف جسٹس بننے سے پہلے اور ریٹائرمنٹ تک سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کھل کر محاذ قائم رکھا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف من گھڑت صدارتی ریفرنس پر بھی اپنے ساتھی جج کو سپریم کورٹ سے فارغ کروانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگاتے دکھائی دیئے۔ کئی موقعوں پر قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ میں جاری مقدمات و کمیشن میں کام کرنے سے روکتے رہے۔ چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تو سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد پچاس ہزار تھی اور آج زیر التواء مقدمات کی تعداد پچپن ہزار سے زائد تک پہنچ چکی ہے۔ چیف جسٹس دورانیے میں سیاسی مقدمات کو آنکھوں سے لگائے رکھا اور اب ڈوبتے سورج یعنی عمر عطا بندیال صاحب جاتے جاتے فرماتے ہیں کہ آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا، سخت امتحان اور ماحول کا کئی مرتبہ عدالت خود شکار بنی، جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہوئی۔ کاش جاتے جاتے موصوف یہ بھی بتا جاتے کہ سیاسی مقدمات میں کس مجبوری کی بناء پر الجھے رہے ۔ نو اپریل 2022کو رات بارہ بجے سپریم کورٹ کھولنے کے اعلان نے پوری پاکستانی قوم کو ورطہ حیر ت میں ڈال دیا، جو قوم دن کے بارہ بجے تک انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں میں دھکے کھاتی اور جوتیاں گھساتی ہے مگر انصاف کا حصول سنہرے خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آرٹیکل 63Aکی تشریح کے لئے صدارتی ریفرنس پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ نے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا جو فیصلہ دیا، اسے آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا گیااور یہی متنازع فیصلہ سیاسی عدم استحکام کی بنیاد بنا۔ اپنی خوش دامن کی مبینہ آڈیولیکس کے مقدمہ کو اپنی سربراہی میں سن کر آئینی عہدہ کے حلف اور ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکلز نمبر چار اور چھ کی واضح خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے۔ اپنی ساس سے منصوب آڈیو لیکس جیسے مقدمہ میں اعتراضات کے باوجود بنچ سے الگ نہ ہوکر بدترین روایت ڈالی ۔ ان کے اس اقدام سے چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ یہ ’’ کورٹ آف لا‘‘ نہیں بلکہ ’’ کورٹ آف مدر اِن لا‘‘ ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر جسٹس کے عہدہ کا حلف اُٹھانے والوں کیلئے قرآن مجید میں واضح ہدایات موجود ہیں: ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘ ( سورۃ النساء آیت نمبر ۱۳۵ )۔ قدرت نے جسٹس عمر عطا بندیال کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے قاضی کے عہدہ سے نوازا، کاش موصوف اپنے دور میں پاکستانی عدالتوں میں عوام الناس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے اور انصاف کے حصول کے لئے عدالتی اصلاحات و انقلابی اقدامات کرتے، جس سے پاکستانی عوام کے دلوں میں عدالتوں کے احترام میں اضافہ ہوتا۔ کاش موصوف اپنے دور میں عام پاکستانی کے لئے انصاف کے حصول کو سہل و یقینی بناتے تو انکی دنیا و آخرت سنور جاتی۔ پاکستانی قوم جہاں سیاستدانوں ، حکمرانوں ، پارلیمنٹ، جمہوریت سے نالاں نظر آتی ہے، وہیں پر عوام کی نظروں میں عدالتوں کا احترام نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام پاکستانی یہی دعا کرتا ہے کہ اللہ کریم ہر فرد کو ہسپتال، تھانہ کچہری سے بچائے۔ پاکستانی قوانین خصوصا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 21کے تحت ہر جج سرکاری ملازم تصور کیا جائے گا۔ عوام الناس کے ٹیکسوں سے تنخواہیں و دیگر مراعات اور ہٹو بچو پروٹوکول لینے والے سرکاری عہدہ پر براجمان اقتدار و اختیارات کے نشے میں شرابور ہوکر فرعون کو بھی پیچھے چھوڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر جب اقتدار کا سورج غروب ہونے کو آتا ہے تو مگر مچھ کے آنسو بہانا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رہے سدا بادشاہی میرے رب کی ہے جسے کبھی زوال نہیں آسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button