
پرتگال سے اسلامی تہذیب کا خاتمہ کیسے ہوا ؟
پرتگال جنوب مغربی یورپ کا ایک ملک ہے جو ایک عرصہ تک اسلامی اندلس کے ماتحت رہا۔ اس کے شمال اور مشرق میں اسپین کے صوبے گلیشیا کس بان، ایکسٹرما ڈور اور انڈو الوسیا اور جنوب اور مغرب میں بحراوقیانوس واقع ہے۔ پرتگال کی سرحد کو پہاڑ اور اس کے چار دریا اسپین سے جدا کرتے ہیں۔
بارہویں صدی عیسوی سے قبل پرتگال کی تاریخ اسپین کی تاریخ کا ایک حصہ رہی ہے۔ بارہویں صدی عیسوی میں آزاد پرتگال کا قیام عمل میں آیا۔ غالباً مسلمانوں کی فتوحات کے وقت پرتگال کا تمام علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا تھا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو صرف جنوب میں مزاحمت پیش آئی۔ اودرہ، شترین اور قلمرویہ کو عبدالعزیز بن موسیٰ بن نصیر نے 714ء میں فتح کیا۔ اندلس کے سیاسی انتشار کے زمانے میں آسٹریا کے الفانسو اوّل اور بقول ابن حیان الفانسو کے بیٹے فروئلا نے موجودہ پرتگال کے مغربی شمالی حصے پر قبضہ کرلیا لیکن یہ عارضی تھا۔ بالآخر الفانسو سوم کے دور حکومت میں پرتگال پر عیسائیوں کا پوری طرح قبضہ ہوگیا، لیکن وہ پورے علاقے کو اپنے قبضے میں رکھنے میں ناکام رہے۔
887ء میں قلمرویہ پر بھی عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ لیکن 985ء میں منصور نے اسے دوبارہ حاصل کر لیا۔ لزبن ابھی تک خلافت کے ماتحت تھا وہ 1009ء میں مہدی اس کا سربراہ بنا۔ بعد میں طوائف الملوکی (ایک ملک کئی حکمران) کے دور میں یہ شہر افطسی حکمرانوں کے قبضے میں چلا گیا۔ یہ حکمران خاندان اندلس کا مغربی علاقہ حاصل کرنے کے لئے اشبیلیہ کے عبادی خاندان سے نکل گیا تو صرف اشبونہ ایک مسلم علاقے کی حیثیت سے رہ گیا۔ 1147ء میں پرتگال کے پہلے بادشاہ الفانسو نے ان دونوں کو فتح کر لیا۔1185ء سے قبل پرتگیزوں نے جنوبی علاقے پر بھی قبضہ کرلیا۔
پرتگال میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں آخری کشمکش 1184ء میں ہوئی۔ یہ آخری کشمکش ابویعقوب یوسف الموحد کی کوشش تھی، اس حملے میں مسلمانوں نے ڈٹ کر پرتگالیوں کا مقابلہ کیا۔ آخرکار الموحد کے لشکر پر پرتگالیوں کے ایک حملے میں ابویعقوب کے کاری زخم آیا اور وہ اشبیلیہ کو واپس جاتے ہوئے اس کے قریب اپنے خالق حقیقی کو جا ملا۔ یہ شکست عام توقعات کے خلاف تھی۔ کیونکہ اس زمانے میں موحدین کی قوت و نامور ی کا ستارہ بلندی پر تھا۔ چنانچہ 1212ء میںالعقاب کے مقام پر عیسائیوں نے فتح حاصل کی۔ اس میں پرتگال فوجوں نے بھی حصہ لیا تھا۔
1249ء میں شلب پر عیسائیوں کا مکمل قبضہ ہوگیا۔ اور الغرب پر سے بھی مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی۔ موجودہ پرتگال میں الغرب مسلمانوں کا آخری مقبوضہ علاقہ تھا۔ ایک اور جنگ کے دوران میں جو 1040ء میں رودسلادو کے کنارے لڑی گئی، اس میں بھی اگرچہ اندلیسیوں نے پہلے حملے میں پرتگیزوں پر بڑا دبائو ڈالا اور ان کی صفیں کی صفیں اُلٹ کر رکھ دیں لیکن بالآخر یہ میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس کے بعد اندلس کے مغرب میں اسلامی حکومت کا دوبارہ قیام ناممکن ہوگیا۔
موجودہ پرتگال میں مذہبی آزادی ہے۔ 75فیصد رومن کیتھولک عیسائی ہیں اس کے علاوہ پروٹسٹنٹ، یہودی اور دوسری اقلیتیں ہیں۔ اگرچہ 1910ء میں ایک جمہوریہ بن جانے کے بعد چرچ غیر آباد اور مذہبی امور کی اسکولوں میں تعلیم ختم کر دی گئی تھی لیکن 1926ء کے انقلاب کے بعد گرجوں کی دوبارہ مرمت اور تعمیر شروع ہوئی۔ موجودہ آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ اس میں سے تقریباً 56 ہزار مسلمان ہیں۔