
کئی آن لائن صارفین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایک خفیہ کیبل یعنی سفارتی ‘سائفر’، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکی انتظامیہ گزشتہ برس سابق وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے، سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔
دراصل یہ دستاویز جعلی ہے۔
10 اگست کو ایک سوشل میڈیا صارف نے مطلوبہ دستاویز کا اسکرین شاٹ پوسٹ کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ’ایک اور سائفر لیک ہو گیا’۔
مبینہ دستاویز پر تاریخ 7 مارچ 2022 درج ہے اور اس کی نشاندہی ‘سیکرٹ ‘یعنی خفیہ کے طور پر کی گئی ہے۔
‘سائفر’ میں امریکا میں تعینات پاکستان کے اس وقت کے سفیر اسد مجید اور جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کےامریکی انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔
اس دستاویز میں امریکی اہلکار کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ‘پاکستان کے موجودہ وزیراعظم (عمران خان) کو ہٹانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں’۔
پوسٹ کو ایکس، جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر 64 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا جبکہ 356 مرتبہ ری پوسٹ اور 761 بار لائک بھی کیا گیا۔
اس مبینہ دستاویز کو دوسرے سوشل میڈیا صارفین نے بھی ایکس پر شیئر کیا۔
کچھ آن لائن صارفین اس بات پر یقین کرتے دکھائی دئیے کہ یہ دستاویز مستند (اصلی) ہے۔
ایک صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ‘شرم’۔
جب کہ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے اپنی پوسٹ میں یہ سوال اٹھایا کہ ‘کیا یہ سفارتی زبان صرف پاکستان کے لیے ہے یا کسی اور ملک کے لیے بھی؟’
حقیقت
3 سابق سفیروں نے جیو فیکٹ چیک کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دستاویز جعلی ہے، اور اس کی کسی بھی ’ سائفر ‘سے کوئی بھی مماثلت نہیں ہے۔
ایک سابق سیکرٹری خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندے شمشاد احمد خان نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ‘سائفر میں ہمیشہ سیکرٹری خارجہ کو مخاطب کیا جاتا ہے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سائفر کا متن ہمیشہ کوڈِڈ لینگویج (اشاروں کی زبان) میں لکھا جاتا ہے اور اسے کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا۔
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ٹیلی فون پر ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ‘یہ سائفر نہیں ہے، اس طرح سائفر نہیں لکھا جاتا’۔
ایک اور سابق سفارت کار نے اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک نجی چینل کو بتایا کہ ‘میں نے اس قسم کا فارمیٹ (طریقہ کار) اپنی پروفیشنل لائف میں آج تک نہیں دیکھا’۔
اس کے علاوہ، اس من گھڑت پوسٹ کو شیئر کرنے والے صارف نے بعد میں اپنی ایک اور پوسٹ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے جو دستاویز شیئر کی تھی وہ طنزیہ تھی۔
اس مبینہ جعلی سائفر کے حوالے سے یہ اہم ہے کہ اسکی تحریر کا متن اصل میں طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھا گیا ہے اور کہیں سے بھی اس کا تعلق کسی حقیقی سائفر سے نہیں ہے۔