Columnعبدالرشید مرزا

معاشی بحران، شہباز حکومت سے نگران حکومت تک

عبد الرشید مرزا
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے 11اپریل کو پاکستان کے بطور 23ویں وزیر اعظم حلف لیا اس وقت بھی معیشت بحران کا شکار تھی اور 9اگست کو صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے ساتھ ہی اتحادی جماعتوں کی حکومت کا اختتام ہو گیا، اگلے 8دن کے اندر نگران وزیراعظم ملک کا کنٹرول سنبھالیں گے۔ نگران حکومت کو وراثت میں کیا ملا اور وہ معیشت کو کہاں لے جائے گی یہ آج کا اہم سوال ہے۔ آسمان سے چھوتی مہنگائی، گرتی ہوئی کرنسی، ڈالر کی اڑان، زرمبادلہ کی کمی، بیروزگاری، قرض اور سود کی ادائیگی، بلند شرح سود نگران حکومت کو وراثت میں ملی ہے۔ ان حالات میں وطن عزیز کی معیشت کا مزید بحران میں چلی جائے گی یا بحران سے نکل پائے گی؟۔
22 کروڑ سے زیادہ آبادی کا ملک، پاکستان1947ء میں اپنے قیام کے بعد سے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ مہنگائی جولائی تک 37فیصد کی ریکارڈ شرح تک بڑھ گئی۔ ملک نے پانچ دہائیوں میں سب سے زیادہ اور جنوبی ایشیا میں اس وقت سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کہ حال ہی میں خطے میں بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) نی حال ہی میں پاکستان میں معاشی نمو محض 0.5فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ سال کی شرح 6فیصد سے کم ہے۔ مزید برآں، پچھلے سال کے تباہ کن سیلاب نے کم از کم 40لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کر دی تھیں، جس نے بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 8.15بلین ڈالر ہیں۔ اپنی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کے ساتھ 288روپے فی ڈالر تک گر گئی ہے، پاکستان کو غیر ملکی قرض ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ جنوری 2026تک، چین جیسے دوست ممالک، عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا تقریباً 80بلین ڈالر قرض ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے ڈالر بچت پالیسی کے تحت صنعتی خام مال کی درآمد میں رکاوٹیں بھی شامل ہیں۔ صنعتوں کے پاس خام مال نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صنعتوں میں مکمل کام بند ہوگیا ہے۔ جبکہ بعض میں کام جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔ موبائل فون کی صنعت مکمل طور پر بند ہوگئی ہے۔ یہ صنعت سال 2018ء میں شروع ہوئی تھی اور اس کے 30کے 30یونٹ بند ہیں۔ پاکستان میں بنے موبائل کی مارکیٹ افریقی اور کم آمدنی والے ملک ہیں۔ اسی طرح گاڑیوں کی صنعت بھی متاثر ہوئی ہے۔ کئی کمپنیوں کے مکمل یونٹ بند ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی صنعت بھی 50فیصد بندش کا عندیہ دے رہی ہے۔
مسلم لیگ ( ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 16ارب 42 کروڑ ڈالر کی سطح پر تھے۔ جس میں سے سٹیٹ بینک کے پاس 10ارب 49کروڑ ڈالر موجود تھے۔ مگر بیرونی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا رہا اور زرمبادلہ ذخائر تیزی سے گرے، آج زرمبادلہ کے ذخائر 8.20ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ 30سال سے قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس سے مجموعی بیرونی اور اندرونی قرض میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے قرض میں گزشتہ 7برس میں دگنا اضافہ ہوا ہے، جس میں 15۔2014ء میں جی ڈی پی کے 24فیصد یعنی 65ارب ڈالر سے 22۔2021ء میں جی ڈی پی کے 40فیصد یعنی 130ارب ڈالر تک اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک نے ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کے اعداد و شمار جاری کر دئیے ہیں، جن کے مطابق اپریل 2022میں ملک پر مجموعی قرض کا حجم 43705ارب روپے تھا جو اپریل 2023میں غیر معمولی طور پر بڑھ کر 58599ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اس طرح وفاقی حکومت نے ایک سال کے عرصے میں 14900ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیا، یعنی 41ارب روپے یومیہ قرض لیا گیا۔ مرکزی بینک کے مطابق حکومت نے ایک سال میں مجموعی ملکی قرض کا 34فیصد قرضہ لیا، صرف اپریل 2023میں 1476ارب روپے کے ریکارڈ قرضے لیے گئے، اپریل میں بیرونی قرضے نہ ملنے کے باعث 99فیصد قرضے مقامی ذرائع سے لیے گئے۔ ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں میں سے مالیاتی اداروں کا حصہ 42فیصد ہے اور مختلف ممالک سے قرض تقریباً 38فیصد ہے۔
پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت ختم ہو چکی،16ماہ تک قائم رہنے والی اس حکومت میں پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا، صرف بجلی اور گیس کی مد میں صارفین پر 1800ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ حکومت نے سوا سالہ اقتدار کے دوران پٹرولیم مصنوعات 129روپے 25پیسے فی لٹر تک مہنگی کیں جبکہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 15روپے 41پیسے تک فی یونٹ اضافہ کیا گیا اسی طرح گیس کے نرخوں میں بھی 112فیصد تک اضافہ کیا گیا جس کے باعث ان کی قیمتوں نے تاریخ کی بلندیوں کو چھو لیا۔ بات کی جائے پٹرولیم مصنوعات کی تو پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 123روپے 9پیسے کا اضافہ کیا گیا جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل 129روپے 25پیسے فی لٹر مہنگا کیا گیا۔ بجلی صارفین نے اس حکومت کی پوری مدت کے دوران بجلی کے بھاری بلوں کے ساتھ سہ ماہی اور ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ الگ برداشت کیا۔ صارفین پر ڈیڑھ ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا حکومت ختم ہونے سے چند روز قبل بجلی کے بنیادی ٹیرف میں ساڑھے 7روپے فی یونٹ تک اضافہ کیا گیا۔ گزشتہ سال بجلی صارفین پر 3.39روپے فی یونٹ اضافی سر چارج الگ عائد کیا گیا تھا۔ گیس صارفین پر 310ارب سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لئے سٹیٹ بنک نے شرح سود کو 22فیصد کر دیا جس سے مہنگائی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا۔ کیونکہ شرح سود میں اضافہ سے پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ ملک کے اندر سرمایہ کاری میں کمی آئی۔
شہباز حکومت سے نگران حکومت کا سفر ہم نے بیان کیا، اب دور شروع ہوگا نگران حکومت کا، جو آئی ایم ایف اور امریکہ کی مشاورت سے بنے گی، جس کو پاکستان کی معیشت مزید تباہ کرنے کا کام سونپا جائے گا، جس میں قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لئے جائیں گے۔ مہنگائی میں اضافہ کی شرح 50فیصد سے تجاوز کر جائے گی۔ ایک ڈالر کی قیمت 350روپے سے بڑھ جائے گی، پٹرول کی ایک لٹر کی قیمت325روپے سے تجاوز کر جائے گی، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا۔ آخر میں کوئی بعید نہیں ایک آواز آئے گی اس سے بہتر پی ڈی ایم کی حکومت تھی، جس نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا تھا۔ دوبارہ بلاول یا شہباز شریف کا نام وزیر اعظم کے لئے تجویز کیا جائے گا۔ جن کی وجہ سے پاکستان میں 10کروڑ سے زائد لوگ سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں 3کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، ہر پاکستانی 2لاکھ 50ہزار کا مقروض ہے، کرپشن ہر آئے دن بڑھ رہی ہے۔ وہاں سوچنے کی بجائے ہماری عوام بریانی کی پلیٹ یا کسی جاگیر دار کے خوف سے اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے اور معاشی بحران تا حد نظر بڑھتا چلا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button