
حدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: ” لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا
.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(جامع الترمذی 3780)
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت : حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب میں ا س روایت کو لاکر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک ،آنکھ اور منہ پرکریدا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعدامام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور ناصر الدین البانی بھی اس روایت کو صحیح الا سناد کہا ہے۔ (جامع ترمذی از تحقیق و تخریج از شیخ ناصر الدین البانی ،جلد 2 ،حدیث 3780)