Column

خوفناک معاشی بحران

روہیل اکبر

گندم کی سمگلنگ اور کم پیداوار کی وجہ سے ہم ایک خوفناک معاشی بحران کی طرف گامزن ہیں اور حکومت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے، غریب اور محنت مزدوری کرنے والا ابھی اس خوفناک مہنگائی کا مقابلہ نہیں کرپا رہا، 25روپے کی روٹی جب 50روپے میں ملنا شروع ہو گی تو عام آدمی کیا کھائے گا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی گندم کی پیداوار سے مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ پاکستان جو کبھی گندم برآمد کرنے والا ملک تھا، آج گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے ملکی آبادی 2فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور گندم کی پیداوار اس حساب سے نہیں بڑھ رہی ہے۔ اس سال گندم کی پیداوار ہدف سے16لاکھ ٹن کم ہونے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے26لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ گندم کی پیداوار کا تخمینہ 28.4ملین ٹن لگایا گیا تھا لیکن پیداوار 26.8ملین ٹن بھی نہیں ہورہی، اب اس کمی کو درآمدات کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ گندم کا زیر کاشت رقبہ بھی 9.3ملین ہیکٹرز سے کم ہو کر 9.1ملین ہیکٹر رہ گیا ہے، کیونکہ کاشتکار دوسری فصلوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں، ہمارے ہاں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پڑوسی ممالک سے بہت کم ہے، جس کی وجہ فصل کی کٹائی کے بعد کے نقصانات، سٹوریج کے نامناسب انتظام، پانی سرمایہ کاری اور ریسرچ کی کمی، غیر معیاری بیج، مہنگی کھاد، قدیمی طور طریقے، قرضوں کے حصول میں مشکلات اور جعلی زرعی ادویات شامل ہیں۔ فصلوں کی کٹائی کے دوران تقریباً دو سو ارب روپے کی گندم ضائع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے درآمدات کے بل میں ڈیڑھ ارب ڈالر تک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فصل کی کٹائی کے بعد دس سے پندرہ فیصد گندم ضائع ہو جاتی ہے، جس کی مالیت 1.3ارب ڈالر تک ہوتی ہے، یہ سارے نقصانات کم رقبے والا کسان اٹھاتا ہے، کیونکہ اس کے پاس زمینداری کا کوئی جدید طریقہ نہیں اور ہمارا محکمہ زراعت بھی اس حوالے سے کوئی کام نہیں کر رہا، صرف برجیوں پر سفیدی کروا کر نیلے پیلے اور لال رنگ سے کیڑے مارنے کا طریقہ ہی بتا کر اپنے کام سے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انکی تنخواہ حلال ہوگئی۔ ہمیں آنے والے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے زراعت میں جدید طریقے متعارف کروانے ہونگے اور غذائی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے مربوط کاوشیں عمل میں لانی ہونگی، تاکہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی تنوع میں عدم توازن، موسمیاتی تبدیلیوں اور غذائیت کے بحران پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی تیار کی جا سکے، اگر اس سلسلہ میں ہم چین کے ساتھ زرعی شعبے میں تعاون کر لیں تو ملک میں غذائی تحفظ کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے، کیونکہ چین نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے زراعت کے شعبے میں نمایاں ترقی کی،چین کے تجربے اور مہارت سے پاکستان اپنی زرعی پیداواری صلاحیت کو نمایاں طور پر بہتر کر سکتا ہے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زراعت ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے مگر اس شعبے کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں کم پیداوار، فرسودہ کاشتکاری کے طریقے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کا فقدان اور پانی کی کمی شامل ہیں چین نے زراعت جیسی جدید ٹیکنالوجیز تیار کرنے میں اہم سرمایہ کاری کی ہے جو فصلوں کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ڈیٹا اور تجزیات کا استعمال کرتی ہے ان ٹیکنالوجیز کو اپنا کر پاکستان اپنی زرعی پیداوار کو نمایاں طور پر بہتر کر سکتا ہے اور عالمی منڈی میں مقابلہ کر سکتا ہے چین اعلی قیمت والی فصلیں تیار کرنے میں بھی پاکستان کی مدد کر سکتا ہے جن کی عالمی منڈی میں خاصی مانگ ہے چین پھلوں، سبزیوں اور پھولوں جیسی فصلیں پیدا کرنے میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ چین کے ساتھ تعاون بڑھا کر پاکستان اپنی آب و ہوا اور مٹی کے حالات کے لیے موزوں فصلوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور ان فصلوں کو پیدا کرنے کے لیے ضروری انفرا سٹرکچر تیار کر سکتا ہے، جس سے زرعی پیداواری لاگت کم ہوگی، کارکردگی بہتر ہوگی اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں مقامی باشندوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے حالانکہ پاکستان مختلف فصلات اور پھلوں میں دنیا کے زیادہ پیدا واریت کی حامل سرفہرست میں 10ممالک میں شامل ہے تاہم ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہماری فی ایکڑ پیداوار کافی کم ہے سوچنے اور غور طلب بات یہ ہے کہ 2050ء تک دنیا کی آبادی 9ارب تک پہنچ جائے گی اور اس وقت تقریباً 75فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہ رہی ہوگی، اگر ہم نے بروقت زراعت کی ترقی کی لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو پھر ہم معاشی طور پر کہاں کھڑے ہونگے اس لیے ہمیں مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پائیدار زرعی استحکام کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی کپاس پر بھی توجہ دینی چاہیے ایک دور تھا کہ ہمارے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ کپاس ہوتی تھی اور یہ صورتحال ہے کہ سال 23۔2022کے دوران پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار تاریخ کی کم ترین سطح تک گر گئی، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان چوتھے سے ساتویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار 49لاکھ12ہزار گانٹھوں تک محدود رہی ہے، جو کہ پچھلے کاٹن ایئر کے مقابلے میں 25لاکھ 29ہزار 764گانٹھیں (34فیصد) جبکہ مقررہ ہدف کے مقابلے میں 61لاکھ گانٹھیں کم ہے۔ پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں پچھلے سال کے مقابلے میں تقریبا 21فیصد جبکہ سندھ میں ریکارڈ 47فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جس کی بڑی وجہ ملک بھر کے کاٹن زونز میں گنے کی غیر معمولی کاشت اور منفی موسمی حالات سمجھے جا رہے ہیں، حالانکہ چند سال قبل تک پاکستان دنیا بھر میں زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چین، بھارت اور امریکہ کے بعد چوتھا بڑا ملک تھا، بعد میں برازیل کا نمبر چوتھا جبکہ پاکستان کا پانچواں ہو گیا تاہم اب پاکستان مزید تنزلی کا شکار ہوکر آسٹریلیا اور ترکی کے بعد ساتویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک بھر کے کاٹن زونز میں گنے کی کاشت پر مکمل پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ موسمیات کو بھی اپ گریڈ کرے تاکہ کاشت کاروں کو درست اور بروقت موسمیاتی پیش گوئیاں ملنے سے کپاس کی فصل کو منفی موسمی حالات سے بچایا جا سکے۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی دوسری شعبوں کی طرح زراعت میں بھی جدت کے حامی ہیں۔ انہیں چین سے بھر پور مدد لینی چاہئے تاکہ ہم آنے والے دور میں خوشحالی کے ساتھ قدم رکھ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button