ColumnHabib Ullah Qamar

مسلم مخالف نئی بھارتی فلم اور لو جہاد کا پراپیگنڈا

حبیب اللہ قمر

بھارتی ریاست کرناٹک میں انتخابات سے قبل سازش کے تحت مسلم مخالف مہم کا آغاز کرتے ہوئے دی کیرالہ سٹوری کے نام سے ایک نئی فلم لانچ کی گئی ہے جس میں نام نہاد لو جہاد کا نظریہ پیش کر کے حقائق کو بری طرح مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کے جاری کردہ ٹریلر میں دعویٰ کیا گیاہے کہ بتیس ہزارہندو اور عیسائی خواتین کا مذہب تبدیل کرکے انہیں مسلمان بنایا گیا اور پھر انہیں آئی ایس آئی ایس ( داعش) جیسی تنظیموں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیاہے۔اس فلم کا ٹریلرجاری کیے جانے پر پورے بھارت میں نا صرف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا ہے وہیں ہندو، سکھ اور عیسائیوں میں موجود انصاف پسند طبقہ نے بھی مسلم دشمنی کی جڑیں گہری کرنے والی اس فلم کے خلاف بھرپور آواز بلند کی ہے۔ مسلم تنظیموں اور علماء کرام کی جانب سے مذکورہ فلم پر پابندی کے لیے ہندوستانی عدالتوں کادروازہ بھی کھٹکھٹایا گیاہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے عدالت کی جانب سے کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا۔بھارت میں کئی سیاست دانوں نے یہ چیلنج بھی کیا ہے کہ حکمران جماعت بھگوا دہشت گرد تنظیم بی جے پی کی سرپرستی میں تیارکردہ فلم میں بتیس ہزار خواتین کے داعش میں شمولیت کے دعوے کیے گئے ہیں لیکن وہ پوری ریاست میں سے ایسی دس خواتین کے ہی نام بتادیں تو وہ اس پراپیگنڈا کودرست تسلیم کر لیں گے اورکروڑوں روپے انعام بھی دیا جائے گا لیکن ہندوانتہاپسند سیاست دانوں اور فلم انتظامیہ کی طرف سے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دیا گیا بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ انہیں اس بات کو زیربحث نہیں لانا چاہیے کہ کتنی خواتین نے داعش میں شمولیت اختیار کی ہے۔ بھارت میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کو بھی مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پھیلانے اور مسلم کش فسادات کو ہوا دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔گزشتہ برس ’’ دی کشمیر فائلز‘‘ نامی فلم ریلیز کی گئی جس میں مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی سے متعلق انتہائی گھٹیااور مذموم پراپیگنڈا کیا گیا۔ بظاہر یہ فلم نوے کی دہائی میں پنڈتوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں اور مقامی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے متاثر ہو کر
وادی کشمیر چھوڑنے والے پنڈتوں کی روداد پر مبنی تھی لیکن اس میں تاریخی حقائق کو اس قدر غلط انداز میں پیش کیا گیا کہ مسلمانوں کے علاوہ کشمیری پنڈتوں نے بھی اس پر اعتراضات کئے اور کہا کہ سیاسی مقاصد کے تحت بنائی گئی اس فلم میں پیش کردہ واقعات کا اصل حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دی کشمیر فائلز نامی فلم بھی عین اس موقع پر ریلیز کی گئی جس پانچ ہندوستانی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے تھے۔ پہلے مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی اور ہجومی تشدد کے واقعات پروان چڑھا کر پورے انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف شدید تعصب کا ماحول پیدا کیا گیااور پھر یہ مسلم مخالف فلم ریلیز کر دی گئی۔ بی جے پی سرکار کی جانب سے اس متنازعہ فلم کی سینما گھروں میں نمائش کے لیے جان بوجھ کر اس دن کا انتخاب کیا گیا جب اترپردیش میں انتخابی نتائج کا اعلان ہونا تھا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے متنازعہ فلم کے پروڈیوسراور ہدایت کار ابھیشک اگروال ، وویک رنجن اگنی ہوتری اوراداکارہ پلوی جوشی سے خصوصی ملاقات کی اورکشمیری مسلمانوں کے خلاف فلم بنانے جیسی اعلیٰ کارکردگی پر انہیں زبردست مبارک باد پیش کی ۔بی جے پی سرکار کی ہدایت پر بنائی گئی اس فلم میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی دلچسپی اس بات سے بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اترپردیش، گجرات اور بعض دوسری ریاستوں میں اس فلم کی نمائش کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ بھارت میں بی جے پی کے پروردہ ٹی وی چینلز اوراخبارات بھی کشمیریوں کی تحریک آزادی کے خلاف بنائی گئی اس فلم کو پروموٹ کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کر تے رہے جس پر اپوزیشن جماعت کانگریس اور دوسری سیاسی تنظیموں نے حکمران جماعت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ بھارت میں بی جے پی کی طرف سے جس طرح دی کشمیر فائلز نامی فلم کی پروموشن کی گئی بالکل اسی طرح نئی مسلم مخالف فلم دی کیرالہ سٹوری کی بھی حمایت کی جارہی ہے۔کیرالہ کی حکمران جماعت سی پی آئی ایم کے لیڈر ، حکومتی وزراء اور اپوزیشن کے مختلف لوگ بھی اس فلم کو ریلیز کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اس فلم کی مکمل حمایت کی ہے اور اس فلم کے بنانے اور اس میں کام کرنے والوں پربھی نوازشات کی بھرمار کی جارہی ہے۔ اس فلم کا ٹریلر اگرچہ چند سیکنڈز کا ہے لیکن اس میں جو باتیں پیش کی گئی ہیں وہ ہندوستانی مسلمانوں کو نفرت و انتقام کی آگ میں دھکیلنے کے مترادف ہیں۔ ٹریلر میں دکھایا گیا ہے کہ ریاست سے بتیس ہزار مسلم خواتین کو داعش میں شامل کروایا گیا اور انہیں شام اور یمن بھیجا گیا ہے جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ فلم کا ٹریلرتمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل کیا گیا اور سرکاری سرپرستی میں اسے اس قدر پھیلایا گیا کہ تھوڑے سے وقت میں اسے دو کروڑ کے قریب افراد دیکھ چکے ہیں۔فلم انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ فلم ہندی، تلگو، تامل اور ملیالم زبانوں میں سینما گھروں میں پیش کی جارہی ہے۔ٹریلر میں ایک طرف جہاں یہ زہر اگلا گیا ہے کہ مسلمانوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے وہیں ایک مرتبہ پھر اس جھوٹے پراپیگنڈا کو ہوا دی گئی ہے کہ مسلمان مبینہ طور پر ہندوخواتین کو محبت کے جال میں پھانس کر ان کا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ ہندوانتہاپسند تنظیموں کی جانب سے اس سے قبل بھی پورے ملک میں اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو ہوا دے کر کئی مسلم نوجوانوں کو قتل کیا گیا اور مسلم کش فسادات کا ماحول پروان چڑھایا جاتا رہا ہے۔اب ایک مرتبہ پھرجب ریاست کرناٹک میں انتخابات ہونا ہیں تو وہاں بھی دوسری ریاستوں جیسی فضا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔کیرالہ کے وزیراعلیٰ پنا رائی وجین نے بھی اس فلم کو آر ایس ایس اور بی جے پی کی جھوٹ کی فیکٹری قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کیرالہ میں بی جے پی کے معمول کے ہتھکنڈے کام نہیں کرتے، اس لیے جعلی کہانیوں پر مبنی فلم کے ذریعے اپنی سیاست پھیلانے اور انتخابات میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔کانگریس لیڈر ششی تھرور اور اپوزیشن لیڈر وی ڈی ستیستان نے بھی فلم دی کیرالہ سٹوری کی مذمت کی اور اسے ریاست میں مذہبی تفریق بڑھانے کی مذموم سازش قرار دیا ہے۔ نئی مسلم مخالف فلم پر صرف بھارت میں ہی تنقید نہیں ہو رہی، سعودی عرب کے اخبارات عرب نیوز اور سعودی گزٹ کے سابق چیف ایڈیٹر خالد المعینا اور دوسرے صحافیوں و دانشوروں نے بھی کہا ہے کہ بھارت میں جھوٹی خبریں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ ان کا مین سٹریم میڈیا بھی انہی جھوٹی خبروں کو پروان چڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں ہندوستانی معاشرے میں قتل و غارت گری اور فسادات کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت میں ایک قبر پر لوہے کا دروازہ اور اس پر قفل چڑھانے کی ویڈیو وائرل کر کے ہندوستان کے قومی میڈیا نے بھی اسے پاکستانی علاقے کی قرار دیا کہ لوگ مبینہ طور پر خواتین لاشوں کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں لیکن بعد میں خود ہندوستانی صحافیوں نے باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ اصل ویڈیو جاری کردی کہ یہ قبر پاکستان کے کسی علاقے کی نہیں بلکہ ہندوستان میں ہی ہے۔بہرحال فلم میں سب سے زیادہ جس لو جہاد کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے اس کے متعلق خود ہندوستانی عدالتیں، تحقیقاتی ایجنسیاں اور ادارے سب کہہ چکے ہیں کہ مسلمانوں پر یہ الزام محض جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن بھگوا دہشت گردتنظیمیں پھر بھی اس کے ذریعے مسلمانوں کو نفرت اور انتقام کی آگ کا نشانہ بنا رہی ہیں۔یہاں ایک اور اہم بات کا ذکر کرتا چلوں کہ نئی مسلم مخالف فلم کے ٹریلر میں جان بوجھ کر بتیس ہزار خواتین کی داعش میں شمولیت کا دعویٰ کیا لیکن جب احتجاج بڑھا توانہوں نے یہ کہہ کر ٹریلر تبدیل کر دیا ہے کہ صرف تین خواتین داعش میں شامل ہوئی ہیں۔یعنی فلم کے ٹریلر کے ذریعے انہوں نے پوری دنیا میں متنازعہ فلم کی پبلسٹی کر لی، مسلمانوں کے خلاف انتہا درجے کا جھوٹا پراپیگنڈا کر لیا اورپھر ٹریلر میں تھوڑی سی تبدیلی کرنے سے انہیں ہندوستانی عدالتوں سے نمائش کی اجازت بھی مل جائے گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سب کچھ طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے اور بھارتی حکومت اور ہندوستانی ادارے سبھی ایک پیج پر ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کی فضا پروان چڑھانے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی مسلمان سب سے پہلے باہم متحد ہوں اور سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا کو بھارت کے گھنانے کردار سے آگاہ کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا جائے۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ دہشت گردبھارت پر دبائو بڑھائیں کہ وہ مسلمانوں کی طرح عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے فسادات اور قتل و غارت گری کا ماحول پیدا کرنے کی قبیح حرکتوں سے باز رہے، وگرنہ اس کے نتیجہ میں وہ ایک مرتبہ پھر اپنے ملک میں نظریہ پاکستان پروان چڑھنے اور ہندوستان کی تقسیم روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button