Ahmad NaveedColumn

پاکستان کے بارے میں ایسی سوچ لمحہ فکریہ ہے! .. احمد نوید

احمد نوید

ماضی کی طرح سوڈان ایک با ر پھرخانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ جس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے، 1956میں آزادی کے بعد سے سوڈان میں پندرہ سے زیادہ فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔سوڈان میں صرف مختصر مدت کے لیے جمہوری سویلین پارلیمانی حکومت رہی ہے۔ سوڈان میں تنازعات کی تاریخ غیر ملکی حملوں اور مزاحمت، نسلی کشیدگی، مذہبی تنازعات پر مشتمل ہے۔ اس کی جدید تاریخ میںمرکزی حکومت اور جنوبی علاقوں کے درمیان خانہ جنگوں میں دس لاکھ افراد ہلاک اور مغربی علاقے دارفور میں جاری تنازعے نے 20 لاکھ افراد کو بے گھر کیا ہے۔
سابق صدر اور فوجی طاقتور عمر البشیرنے ملک کے مغرب میں ایک جنگ کی کمان کی اور انہوں نے دارفور کے علاقے میں ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد کی بھی نگرانی کی۔ جس کے نتیجے میں ان پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ دارفور تنازعہ کی اہم شخصیات میں محمد ہمدان دگالو شامل تھے، جو 2023ء کی جھڑپوں کے وقت ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF)کے کمانڈر تھے۔ 2019ء میں بڑے پیمانے پر سول نافرمانی کے تناظر میں ایک بغاوت نے البشیر کو معزول کر دیا تھا۔ وزیر اعظم عبد اللہ حمدوک کی سربراہی میں ایک عبوری مشترکہ سول ملٹری اتحاد حکومت قائم کی گئی۔ تاہم اکتوبر 2021ء میں، فوج کی بغاوت نے اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کی قیادت سوڈانی مسلح افواج (SAF)کے رہنما عبدالفتاح البرہان اور RSFکے رہنما دگالو کر رہے تھے۔ البرہان بعد میں طاقتور رہنما بن گئے۔ ریپڈ سپورٹ فورسزکے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔یہ ایک نیم فوجی تنظیم ہے جس کی قیادت دگالو نے کے پاس ہے۔ انہوں نے جون 2019ء میں خرطوم کے قتل عام کے دوران جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف کریک ڈائون کر کے بدنامی حاصل کی تھی۔ ریپڈ سپورٹ فورسز اور سوڈانی فوج دونوں نے سونے کے بدلے روس سے سیکیورٹی ٹریننگ اور ہتھیاروں کی ترسیل سے فائدہ اٹھایا تھا۔ ماضی کی طرح سوڈان ایک بار پھرخانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ سوڈان میں انسانی بحران نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔لڑائی کے بعد پیدا ہونے والایہ انسانی بحران زیادہ درجہ حرارت اور رمضان کے روزوں کے دوران ہونے والے تشدد کی وجہ سے مزید بڑھ گیا تھا۔ زیادہ تر رہائشی کراس فائر میں پھنس جانے کے خوف کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء اور سامان اکٹھا کرنے کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے قاصر تھے۔ ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے کہا کہ ہسپتالوں میں عملہ کم ہے اور علاقوں میں دو تہائی سے زیادہ ہسپتالوں کی خدمات ختم ہو چکی ہیں۔ ہزاروں باشندے پیدل یا گاڑیوں کے ذریعے خرطوم سے ملک کے محفوظ حصوں کی طرف بھاگ رہیں ہیں۔ ان حالات میں سے بہت سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لوگ سڑکوں پر رکاوٹیں اور ڈکیتیوں کی وجہ سے پر شان ہیں۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے بعد میں اندازہ لگایا کہ ہزاروں لوگ چاڈ بھاگ چکے ہیں۔ خرطوم ہوائی اڈے کو لڑائی کی وجہ سے بند کر دیا گیاہے، جس کی وجہ سے ہوائی جہاز سے آمدورفت مشکل ہو گئی ہے۔ ان حالات میںسب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ سوڈانی جنگجوئوںنے دارالحکومت خرطوم میں نیشنل پبلک ہیلتھ لیبارٹری پر قبضہ کر لیا ہے ۔جو د نیا کے لئے ایک بڑا حیاتیاتی خطرہ ہے۔ ایک اعلیٰ درجے کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ سوڈانی جنگجوئوں نے دارالحکومت خرطوم میں نیشنل پبلک ہیلتھ لیبارٹری پر قبضہ کرکے جس میں بیماریوں کی نمونے اور دیگر حیاتیاتی مواد موجود ہیں، کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔جس کے غلط استعمال سے بڑے حیاتیاتی خطرے کا امکان ہے۔ سوڈان میں ڈبلیو ایچ او کی نمائندہ نیمہ سعید عابد نے اس قبضہ کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس لیب میں پولیو ، خسرہ اور ہیضے کے آئیسولیٹس ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ خرطوم میں صحت عامہ کی مرکزی لیبارٹری پر لڑائی لڑنے والے فریق بہت بڑا حیاتیاتی خطرہ کو جنم دے چکے ہیں ۔اس خطرہ کی و جہ سے وائٹ ہائوس امریکی شہریوں کے انخلاء میں مدد کے لیے امریکی فوجیوں کو پورٹ سوڈان بھیجنے کے منصوبے پر غور کر رہا ہے۔آپریشن کے بارے میں علم رکھنے والے ایک امریکی اہلکار نے پیر کو سی این این کو بتایاکہ سوڈان کے ساحل پر تین امریکی جنگی جہاز بھی تعینات کیے جا رہے ہیں۔ فرانس اور پاکستان دونوں ملکو ںنے ا پنے سینکڑوں شہریوں کو نکال لیا ہے،جو بچے ہیں وہ اپنے کاروبار چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سالوں کی محنت اور مشقت سے اپنا کاروبار کھڑا کیا ہے۔ یہاں کے لوگ ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ اب اگر ان حالات میں یہ ملک چھوڑ کر جائیں گے تو اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ پنجاب کے ضلع گجرات کے رہائشی اعجاز احمد سوڈان کے جنگ زدہ دارالحکومت خرطوم میں گزشتہ سات سال سے ایئر کنڈیشن کی تین ورکشاپس چلا رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کے رہائشی انجینئر رانا قیصر نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ شدید خانہ جنگی کے باوجود پاکستان واپس نہیں جائیں گے۔ قیصر تقریباً دس سال سے سوڈان میں کاروبار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق سوڈان میں موجود پاکستانی سفارت خانہ یہاں مقیم پاکستانیوں کے انخلا میں مدد فراہم کر رہا ہے اور گزشتہ روز پورٹ سوڈان سے 37پاکستانیوں کو لے کر ایک بحری جہاز جدہ پہنچا ہے۔ اس صورتحال کے باعث بہت سے پاکستانی سوڈان سے جلد از جلد بحفاظت نکلنے کی سعی کر رہے ہیں مگر کچھ ایسے پاکستانی بھی ہیں جو جنگ زدہ سوڈان چھوڑ کر پاکستان نہیں آنا چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج اگر ہم واپس چلے گے تو پھر دوبارہ سوڈان میں موجود اپنے تعلق داروں کے پاس کیسے آئیں گے۔ ویسے بھی ان کے پاس پاکستان جا کر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ خرطوم میں دکانیں، پیٹرول پمپ سب کچھ بند ہیں۔ نظام زندگی معطل ہے۔ اس وقت کچھ پاکستانی مدنی شہر میں موجود ہیں ۔خرطوم کے حالات انتہائی خوفناک ہو چکے ہیں۔ لوگوں کے پاس کھانے پینے کے اشیا ختم ہو چکی ہیں۔ آج سوڈان کے لوگ جنگ کے ماحول کے عادی ہو چکے ہیں۔ ایک پاکستانی کا خیال ہے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد سوڈان کے حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ جنگ کے ماحول کے عادی ہیں مگر پھر حالات ایک دم ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ اب اس وقت لڑائی ہو رہی ہے۔ یہ لڑائی اگر ختم ہو جائے تو یہاں پر کاروبار دوبارہ شروع ہو جائے گا اور ایسا لگے گا کہ کھبی لڑائی ہوئی ہی نہیں تھی۔ اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنا کاروبار عارضی طور پر بند کردوں گا مگر پاکستان نہیں جائوں گا۔ اگر ایک مرتبہ ان حالات میں پاکستان چلا گیا تو محنت سے بنایا ہوا کاروبار ختم ہو جائے گا، اور پاکستان میں اس وقت مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ سوڈان ہی نہیں بلکہ پورے افریقہ میں کاروبار کے مواقع پاکستان اور باقی دنیا سے بہتر ہیں۔ سوڈان جیسے ملک میں کسی پاکستانی کی پاکستان کے بارے میں ایسی سوچ لمحہ فکریہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button