سیاسی نظام فیل ہو چکا ہے ؟ ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی
سیاسی نظام فیل ہو چکا ہے ؟
حکومت کی کار کردگی اچھی نہ ہو، عوام کے مسائل حل نہ ہو رہے ہوں، قانون کی حکمرانی کا تصور دور دور تک نہ ہو تو ایسی حکومت کے بارے میں رائے عامہ منتشر ہی نہیں ہوتی بلکہ کسی نئے نظام کے بارے میں سوچنے لگتی ہے۔ اچھی حکومت کے حوالے سے ارسطو نے اپنی تصنیف ’’سیاسیات‘‘ میں مثالی حکومت کیلئے چند اہم شرائط کا ذکر کیا تھا جو اعلیٰ طرزِ حکومت کیلئے لازمی ہیں۔ مثالی حکومت ہر اعتبار سے جامع، مکمل اور خود کفیل ہو۔ آبادی صرف اتنی ہی ہو جو خود کفیل ہو۔ مثالی ریاست کیلئے مناسب آبادی ضروری ہے۔ زیادہ آبادی ارسطو کے نزدیک ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ گنجان آبادی کی صورت میں ریاست کا انتظام چلانا حکومت کیلئے دشوار ہو گا۔ شہر کے لوگوں کا صاحبِ استطاعت ہونا ارسطو ضروری خیال کرتا تھا، نیز یہ کہ وہ شہریت کے حقوق صرف ان لوگوں کو دینے کا قائل تھا جو ریاست کے کاموں میں برابر کے شریک ہوں۔ ریاست کے قیام کیلئے تیسری شرط سپاہیوں کی مناسب تعداد ہے تاکہ دشمن کے حملہ آور ہونے کی صورت میں شہر کا دفاع ہو سکے۔ ارسطو کے خیال میں کاشتکاروں، دستکاروں، خوش حال لوگوں، منتظم اور مذہبی پیشوائوں کا ہونا بھی ریاست کیلئے بہت ضروری ہے۔ یاد رہے کہ کاشتکاروں اور دستکاروں کا شمار وہ شہریوں میں نہیں کرتا تھا۔ ریاست کا علاقہ اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ لوگ اس میں پرسکون زندگی بسر کر سکیں۔ اپنی ضروریات کی تمام اشیاء کو اس میں پیدا کر سکیں اور اسمبلی کے اجلاس میں تمام شہریوں کا اجتماع ممکن ہو سکے۔ شہر محل وقوع کے اعتبار سے محفوظ ہوتا کہ بیرونی حملے کے وقت دشمنوں کے حملے سے بچنے کیلئے مناسب دفاع کیا جا سکے۔ ارسطو مثالی ریاست کے قیام کیلئے تعلیم کا ہونا بھی ضروری خیال کرتا تھا۔ اس کے خیال میں تعلیم ہی کے ذریعے لوگوں کے کردار کی تعمیر ہوتی ہے اور ان کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی صلاحیتوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ اس لیے تعلیم یافتہ لوگ ریاست کیلئے ضروری ہیں۔
وقت، حالات اور دنیا کے جدید رجحانات کو دیکھتے ہوئے تمام جمہوری ملکوں میں ارسطو کا کچھ نہ کچھ فلسفہ کارفرما ہے کیونکہ اس وقت جمہوری نظام حکومت ہی واحد کامیاب نظام حکومت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جس میں جمہور ملکی انتظام و انصرام میں اپنے ووٹ کے زریعے شمولیت اختیار کرتے ہیں لیکن یہ نظام ایسے ملکوں میں کامیاب ہے جہاں تعلیم اور شعور کی شرح بلند ہے جبکہ ہمارے جیسے ملکوں جہاں جمہور کی جمہوری عمل میں شرکت طوہاً کراہاً وڈیرے، جاگیر دار اور سرمایہ دارکی دھونس دھاندلی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہے اور تمام ملکی سیاسی جماعتیں اپنی ساخت اور سوچ میں جمہوری سوچ اور اپروچ نہیں رکھتیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام عوام کے قریب تر ہوتا ہے جس میں ان کی شمولیت لازمی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں جو نظام متعارف ہے اس میں بھی اختیارات کی تقسیم ابھی تک متنازعہ ہے اور مقامی جمہورتیوں کا نظام ہم رائج نہیں کر سکے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کے ساتھ ایک ستم یہ ہوا کہ حکمرانوں نے جمہوریت کی جو برانڈ متعارف کروائی اس میں اختیارت کی واضع تقسیم نہیں کی گئی مثال کے طور پر انیس سو چھپن میں جب پہلا آئین تیار ہوا،اِس کے بعد صدر ،وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیار کی کشمکش ہوتی رہی اور نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔ ایوب خان اور بھٹو کے دور میں آئین بنے لیکن ہر آئین میں ترامیم کی بھر مار ہوتی رہی۔ انیس سو تہتر کے آئین کو متفقہ آئین قرار دیا گیا لیکن تاحال اس میں بھی ترامیم کا سلسلہ جاری ہے۔ جو بھی حکمران آیا اس نے اپنے اقتدار کوطول دینے اور گرفت مظبوط رکھنے کیلئے آئین میں من مانی ترامیم کرائیں ضیا رجیم اس حوالے سے سر فہرست رہا ۔
عوام بے چاری جمہوریت کے فیوض و برکات سے محروم ہی نہیں رہی بلکہ اس کے حقوق بھی متاثر ہوئے ہیں اس وقت جو جمہوریت چل رہی ہے، اس میں عام آدمی کی شمولیت ظاہراً نظر تو آتی ہے مگر وہ عملاً اس میں شامل نہیں ہے۔ کوئی بھی قومی پالیسی عام آدمی کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائی جاتی۔ تعلیم اور صحت کے شعبے کو نظر انداز کر کے ایسے منصوبے شروع کئے گئے جن کی ضرورت سے انکار نہیں مگر ملکی صورت حال کے پیش نظر ابھی ان کی ضرورت نہیں تھی۔ پہلی ترجیح تعلیم اور صحت ہونی چاہے تھی جس سے عوام محروم چلے آرہے ہیں کوئی ہسپتال، ڈاکٹر کا کلینک ایسا نہیں جہاں مریضوں کا اژدہام نہ ہو لیکن انہیں صحت عامہ کی سہولتیں میسر نہیں۔ کہیں دوائی نہیں تو کہیں مشین خراب اور اس پر مستزاد ڈاکٹرز اور عملے کاتوہین آمیز رویے کا شکار عام آدمی جس قدر مشکلات کا سامنا اس دور میں کر رہاہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح تعلیم کامعاملہ ہے حکومت ابھی تک سکولوں سے باہر اڑھائی کروڑ سے زائد بچوں کو سکولوں میں نہیں لاسکی جبکہ پرائیویٹ سکولوں کے تعلیمی معیار سے بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے اور نظام تعلیم کی سمت بھی ابھی تک واضع نہیں کی گئی موجودہ نظام تعلیم پاکستانی بچوں کو انسان بنانے سے قاصر ہے۔ تفریق تقسیم اور اذہان کو منتشر کرنے والے نظام تعلیم سے کس تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟۔ انہتا پسندی، نفرت ،تعصب اور عدم روداری کو فروغ دیتا نصاب فوری تبدیلی کے تقاضے کررہا مگر ہماری توجہ اس جانب نہ ہونے کے برابر ہے۔
امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر آج ہر ادارہ اور گھرپرائیو یٹ سکیورٹی گارڈ کا مرہون منت ہو چکا ہے، محلے آہنی جنگلوں کے حصار میں قید ہوچکے ہیں، انسانی آزادی اور حقوق کا تصور آہستہ آہستہ مفقود ہوتا جارہا ہے ان حالات میں اگر کوئی دوسرا ریاستی ادارہ حکومت کو اپنی کار کردگی اچھی کرنے کا کہتا ہے تو تو حکومتی نابغے اسے حکومتی امور میں مداخلت قرار دے کر اس کے لتے لینے شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ ملکی معاملات کودرست کرنا تمام ادارورں کا فرض اور ذمہ داری ہے۔ عوامی مسائل سے حکومتی لاتعلقی نے ہی عوام کے ایک اغلب حصے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ موجودہ جمہوری سیاسی نظام میں ان کے مسائل کا حل نہیں اور وہ کوئی ایسا نیا نظام چاہتے ہیں جس میں پاکستان ایک فلاحی مملکت کے روپ میں ڈھل کر ہر شہری کو اس ضروریات اور حقوق اس کی گھر کی دہلیز پرمہیا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ امن و امن کے قیام کا داعی ہوجو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان کہلا سکے تیسری قوت بھی اس ضمن میں ناکام ہو چکی ہے۔