ColumnImtiaz Aasi

آئی جی جیل تبادلے کی اندرونی کہانی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ایک دور میں جیلوں کے آئی جی پولیس سے ڈی آئی جی عہدہ کے افسران لیے جاتے تھے۔جب جیلوں کے افسران میں کوئی گریڈ بیس یا گریڈ انیس کا کوئی افسر دستیاب نہ ہوتا تھا۔جب سے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس براہ راست لینے کا سلسلہ شروع ہو ا ہے محکمہ جیل خانہ جات میں گریڈ انیس اور گریڈ بیس کے کئی افسران موجود ہیں۔اب تو گریڈبیس اورانیس کے کئی افسران صوبے کے مختلف ریجنوں میں ڈی آئی جی تعینات ہیں۔میاں فاروق نذیر اور مبشر محمد خان ملک کا شمار انہی افسران میں ہوتا ہے جو براہ راست پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سپرنٹنڈنٹ بھرتی ہوئے تھے۔مرزا شاہد سلیم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سنیارٹی کے لحاظ سے میاں سالک جلال ان سے سنیئر تھے جنہیں چند روز تک آئی جی کاچارج دینے کے بعد تبدیل کر دیا گیا تھا۔ گریڈاکیس کے میاں فاروق نذیر جو ایس اینڈجی اے ڈی میں ممبر انکوائریز کے عہدہ پر کام کر رہے تھے، جیل افسران میں واحد گریڈ اکیس کے افسر ہیں جنہیں سابق چیف جسٹس افتخارچودھری کے دور میں گریڈ اکیس میں ترقی دے کر آئی جی کی پوسٹ کو اپ گریڈ کیا گیا تھا لیکن گریڈ بیس کے ڈی آئی جی مبشر محمد خان ملک آئی جی کا منصب سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
میاں فاروق نذیر اب تیسری مرتبہ آئی جی تعینات ہوئے ہیں پہلی مرتبہ تو وہ چند ماہ ہی اس عہدے پر رہے تھے، البتہ شہباز شریف دور کے آخری دنوں میں ایک عدالتی فیصلہ کی روشنی میں انہیں آئی کے عہدے پر اس وقت کے سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے تعینات کیا تھا۔فاروق نذیر نے لگ بھگ چھ برس تک آئی جی کے عہدے پر کام کیا۔مبشر ملک نے اپنے تبادلے کے خلاف عدالت عالیہ سے حکم امتناعی حاصل کر لیاجس کی آئندہ سماعت 27 مارچ کوہو گی ۔نگران سیٹ اپ میں عام طور پر تبادلوں کے حصول کیلئے صوبوں کو الیکشن کمیشن سے اجازت لینا ضروری ہوتی ہے آئی جی کے تبادلے میں نگران حکومت نے الیکشن کمیشن سے اجازت لیے بغیر ان کا تبادلہ کر دیا ۔جہاں تک مبشر ملک کے تبادلے کی وجوہات کا تعلق ہے، ہماری معلومات کے مطابق نگران حکومت نے چودھری پرویز الٰہی کے دور میں لگائے گئے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کوہٹانے کا فیصلہ کیا تو آئی جی مبشر ملک نے جیل بھرو تحریک کے علاوہ اور کئی عذر پیش کرکے ان افسران کو تبدیل کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا جس کے بعد نگران حکومت نے انہیں فوری طور پر ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس ناچیز کی معلومات کے مطابق صوبے کی 43 جیلوں میں بہت سی جیلیں ایسی ہیں جن کا شمار نفع بخش جیلوں میں ہوتا ہے۔سابق دور میں سنٹرل جیل راولپنڈی، کیمپ جیل لاہور، ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد، سنٹرل جیل کوٹ لکھپت اور دیگر نفع بخش جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کو تواتر سے تبدیل کیا جاتا رہا ہے ۔ عثمان بزدار کے دور میں بھی جیلوں کے افسران کے تبادلوں کے احکامات وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے جاری ہوا کرتے تھے حالانکہ سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کے تبادلوں کا کلی اختیار سیکرٹری داخلہ کا ہوتا ہے۔ گریڈ اٹھارہ اور اس سے اوپر کے انتظامی افسران کے تبادلے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ان گریڈز سے اوپر کے افسران کے تبادلوں کااختیار چیف سیکرٹری کے پاس ہوتا ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے کی جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کو تبدیل کرنے کیلئے فہرست کو حتمی شکل دے دی ہے لہٰذا اب کسی وقت بھی جیلو ں کے افسران کے تبادلے متوقع ہیں۔ آئی جی ملک مبشرنے اپنی چند ماہ کی تعیناتی کے دوران قیدیوں کے فلاح وبہبود کیلئے بہت سے اقدامات کئے ہیں، جہاں تک محکمہ سے بدعنوانی کے خاتمے کاتعلق ہے جیلوں میں کیمروں کی تنصیب کے باوجود سب اچھا ختم کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور نہ ہی میاں فاروق نذیراپنے چھ سالہ دور میں سب اچھا ختم کرنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔محکمہ جیل خانہ جات میںایسے افسران جو سفارش نہیں رکھتے یا مال پانی دینے سے معذوری ظاہر کرتے ہیں وہ گذشتہ کئی سالوں سے کھڈے لائن جیلوںمیں تعینات ہیں۔محکمہ جیل خانہ جات میں تبادلوں کا یہ عالم ہے کہ بھاری سفار ش رکھنے والے افسران خواہ وہ نچلے گریڈ میں ہی کیوں نہ کام کرتے ہوں انہیں سنیئر پوسٹوں پر لگا دیاجاتا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ قانون میں اس بات کی گنجائش ہے کسی جونیئر افسر کو سنیئر پوسٹ پر تعینات کیا جاسکتا ہے لیکن سنیئر پوسٹ پر وہی افسران لگائے جاتے ہیں جویا تو سفارش کے حامل ہوتے ہیںیا پھر دوسرے طریقہ سے من پسند پوسٹنگ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
چلیں کیمروں کی تنصیب سے ملاقاتی شیڈوں میں لین دین کرنے والے اہل کاروں کو پتا چلایا جا سکتا ہے لیکن لنگر خانوں ،فیکٹریوں میں مشقت نہ کرنے والے قیدیوں کا کس طرح پتا چلایا جا سکتا ہے ۔فیکٹریوں میں سب اچھا کرنے والے قیدی اپنی اپنی بیرکس میں رہتے ہیں اور لنگر خانوں میں سب اچھا کرنے والے لنگر میں اپنے لیے مختص کمروں میں رہتے ہیں جو کیمروں کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔سنٹرل جیلوں میں لنگر خانوں اور فیکٹریوں کی مشقت بہت سخت ہوتی ہے مالی لحاظ سے مستحکم قیدی لنگر اور فیکٹری کی مشقت سے جان چھڑانے کیلئے کم ازکم پانچ ہزار روپے فی کس سب اچھا ادا کرکے مشقت سے بچے رہتے ہیں۔جیلوں میں کرپشن کا ایک بڑا ذریعہ گنتی ڈالنے کا ہوتا ہے جب کوئی حوالاتی جیل میں آتا ہے اس کے ساتھ اور مقدمہ میں ملوث ملزمان ہوں تو جیل والے انہیں علیحدہ علیحدہ بیرکس میں رکھتے ہیںجس کے بعد لامحالہ قیدی ایک بیرک میں رہنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو انہیں کم ازکم دس ہزار روپے سب اچھا کرکے ایک بیرک میں کرانا پڑتا ہے۔فراڈ کیسوں میں آنے والے ملزمان کی کوشش ہوتی ہے وہ کسی طرح جیل کے ہسپتال میں گنتی ڈلوا لیں اس مقصد کیلئے انہیں کم ازکم بیس ہزار روپے ماہانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔جیل کا میڈیکل آفیسرسپرنٹنڈنٹس سے تعاون نہ کرے تو اگلے روز سپرنٹنڈنٹس ہسپتال سے قیدیوں اور حوالاتیوں کی گنتی بیرک میں ڈال دیتے ہیں۔لنگر خانوں سے بچایا جانے والا سامان عام طور پر مارکیٹس میں فروخت ہوتا ہے ۔ حال ہی میں قیدیوں کیلئے فراہم کئے جانے والے دودھ کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کی انکوائری ہو رہی ہے۔جیلوں میں کرپشن کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب کسی راست باز افسر کو آئی جیل لگایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button