CM RizwanColumn

لاڈلوں کے چونچلے ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

لاڈلا اسے کہتے ہیں جس کی ہر ادا اور ہر شرارت اور شوخی آپ کو نہ صرف اچھی لگے بلکہ اس پر مزید صدقے واری جانے کو جی چاہے۔ لاڈلا دن کو اگر رات کہے تو آپ فوراً سے پہلے مان لیں، لاڈلا کالی رات کو اگر دن کہے تو بھی آپ نہ صرف بلا تردد مان لیں بلکہ اس کی اس ادا پر بھی قربان ہوں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلے گورنر جنرل پاکستان کے عہدے پر متمکن رہنے کے بعد یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ بانی پاکستان کا انداز حکومت ملک کی دیگر تمام اشرافیہ اور بیوروکریسی و افسر شاہی سے یکسر برعکس تھا۔ بدقسمتی یا جو بھی کہہ لیں کہ وہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اس سسٹم سے نجات حاصل کر گئے اور سسٹم انتہائی خشوع و خضوع اور انہماک سے اقربا پروری اور مفاد پرستی کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوگیا۔ پھر نیچے سے لے کر اوپر تک اسی اصول پر ملک بھر کا نظام استوار ہوگیا۔ قائد کے بعد لیاقت علی خان کے شہید ہونے کے ساتھ ہی اس سسٹم کے لاڈلے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور وطن پرستوں اور دیانت داروں کو چن چن کر عبرت کا نشان بنایا جانے لگا۔ حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، مجیب الرحمٰن، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف اس سسٹم کے ناپسندیدہ عناصر ٹھہرائے گئے اور ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، معین قریشی، شوکت عزیز اور عمران خان جیسے لوگ اس سسٹم کے پسندیدہ حکمران قرار پائے۔ اس سسٹم کے پسندیدہ اور لاڈلے جبکہ ناپسندیدہ اور قابل نفرت عناصر وزیراعظم سے لے کر چپڑاسی تک الگ الگ شناخت اور طرزِ عمل کے ساتھ ملک کی ابتداء سے ہی چلے آرہے ہیں۔
ملک بھر کے سرکاری دفاتر میں بھی ابتدا سے ہی کچھ ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے کہ کوئی نہ کوئی کلرک بادشاہ یا کوئی سیکرٹری اپنے صاحب کا لاڈلا بن جاتا ہے اور پھر نہ صرف پورا محکمہ بلکہ بعض اوقات پورا ملک اور پورا سسٹم اس ناجائز لاڈ کا خمیازہ چکاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی خواہ مخواہ کا لاڈلا بن جاتا ہے تو اس کے ساتھی اس سے احتراز یا خوف کا شکار ہو جاتے ہیں کہ صاحب کا لاڈلا ہے اس سے احتیاط کرو۔ عام طور پر لاڈلے کام تھوڑا اور پراپیگنڈہ زیادہ کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ لاڈلے ہر ناجائز کام اتنی آسانی سے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں کہ جائز کام سے بھی زیادہ سرعت اور تیزی سامنے آتی ہے کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ہمارا نظام ناجائز کا ہی پروردہ ہے اور جائز کا راہ چلتا دشمن۔ ویسے تو لاڈلوں کی کئی اقسام ہیں لیکن یہاں صرف تین کا ذکر کافی ہوگا۔ نمبر ایک بے ضمیر لاڈلے، ان کا پہلا مقصد سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز شخص، جنہیں عرف عام میں صاحب کہا جاتا ہے، تک رسائی حاصل کر کے ان کا اعتماد حاصل کرنا۔ ایک دفعہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر یہ حاکم بالا کو یقین دلا دیتے ہیں کہ ’’صاحب آپ آرام اور ہم کام‘‘ کریں گے۔ پھر یہ اپنے ذاتی اور گروہی فائدہ کیلئے ہر جائز و ناجائز کام کرتے ہیں، جائز تو خیر آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے لیکن ناجائز کا یہ وافر مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کیلئے حلال و حرام کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ان لاڈلوں کا دوسرا مقصد اداروں میں جلد از جلد اعلیٰ یا بنیادی عہدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کے پاس سے اخلاقیات کا چھو کر بھی گزر نہیں ہوا ہوتا۔ لہٰذا یہ دیانت دار عناصر اور اہلکاروں کو سب سے پہلے نکرے لگاتے ہیں اور پھر بددیانتی کا باجا کھل کر بجاتے ہیں،اگر صاحب بھی لاڈلے جیسا ہو تو لاڈلے کے وارے نیارے، ورنہ یہ دوسری ملازمت کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ دوسری قسم جاسوس لاڈلوں کی۔ ان کا مقصد صاحب کو باور کرانا ہوتا ہے کہ اس کے ماتحت سب چور ہیں سوائے اس کے۔ اگر صاحب کانوں کا کچا ہو تو ان کی لاٹری پکی۔ یہ لاڈلے دفتر میں دفتری نوعیت کا کوئی بھی کام کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ بلکہ ہر وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ مٹر گشت کرتے پائے جاتے ہیں۔ کوئی بات سنی فوراً تیار مصالحہ لگا کر صاحب کے گوش گزار ہو گئے۔ یہ لاڈلے اپنی کام کی ذمہ داریوں میں صرف جاسوسی کو ہی اپنی اصل ملازمت سمجھتے ہیں۔ یہ لاڈلے کسی کی بھی نوکری پر لات مارنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کرتے۔ تیسری قسم کے چاپلوس لاڈلے ہوتے ہیں ایسے لاڈلے عموماً صاحب کے ناز اٹھانے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں پھر یہ کہ صاحب کے ناز اٹھانے میں اتنے بڑھ چکے ہوتے ہیں کہ ان کا متبادل بننے کیلئے دیگر ملازموں کی طاقت کم پڑ جاتی ہے۔ یہ اکثر صاحب سے اپنے کام کے علاوہ ہر موضوع پر بات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ چاپلوسی ان کی فطرت میں شامل ہوتی ہے۔ اگر آپ غلطی سے کبھی ان کے کام سے متعلق کوئی بات کر لیں تو الٹا لگتا ہے کہ اس کام کو سر انجام دینے کی ذمہ داری ان کی
نہیں بلکہ آپ کی تھی۔ بالفرض اگر ان کا کام ادارہ کے مالیاتی امور سے متعلق ہو تو یہ مالیاتی امور کے علاوہ ہر موضوع پر بات کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ان کی زبان سے صاحب کے سامنے، یس سر کے علاوہ کوئی لفظ نہیں نکلتا۔ایسے لاڈلے اپنے ماتحت بھی لاڈلے رکھنا پسند کرتے ہیں جو ان ہی کی طرح کا برتاو کریں۔ اگر ان کا ماتحت کوئی کامیابی دکھائے تو کبھی اس کو نہیں سراہتے بلکہ اس کی کامیابی کو اپنی کامیابی ثابت کر کے بڑے صاحب کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ القصہ لاڈلے کسی بھی قسم کے ہوں صاحب کی نوازشیں ان پر کم نہیں ہوتیں۔یہ ادارے کے پالیسی ساز بھی ہوتے ہیں۔ بیرونی دوروں پر بھی نظر آئے ہیں۔ ہر صورت میں ان لاڈلوں کو سہولت دی جا رہی ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دفاتر میں سب سے زیادہ مراعات یافتہ طبقہ یہی لاڈلے ہوتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ اگر کسی ادارے میں لاڈلوں کی تعداد بڑھ جائے تو وہ ادارہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ اس قاعدے کو مدنظر رکھتے ہوئے صاحب لوگوں نے بھی لاڈلوں کے حوالے سے ایک مستقل اور پکا اصول طے کر رکھا ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک لاڈلا ہوتا ہے سابقہ لاڈلا اور امیدوار لاڈلا اس اصول کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ تو ہے وطن عزیز کے تمام چھوٹے بڑے سرکاری اداروں کی صورتحال اور یقین جانئے اسی اصول کے تحت ملک بھر کے تمام ادارے پچھلے ستر سالوں سے کام کررہے ہیں۔
وطن عزیز کے موجودہ وقت کے بڑے بڑے لاڈلوں کی فہرست اگر تیار کی جائے تو ان میں سابق وزیراعظم عمران خان، پرویز الہٰی، فیصل واوڈا، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان سرفہرست ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ سسٹم ان کے ہر جائز ناجائز لاڈ کو برداشت کرنے کیلئے پہاڑوں سے بلند حوصلہ اور دریاؤں کے دامن سے زیادہ وسعت قلبی رکھتا ہے۔ عمران خان حکومت سے باہر رہتے ہوئے بھی ہر قسم کی گالی دینے کے باوجود دھڑلے کے ساتھ سرکاری پروٹوکول اس حد تک انجوائے کررہے ہیں کہ وقت کے وزیراعظم سے زیادہ اس کی سکیورٹی پر سرکاری خزانہ لٹایا جارہا ہے۔ دوسری جانب شیخ رشید ہے کبھی وہ سسٹم کا لاڈلا تھا تو اسے وزارت داخلہ کا قلمدان دینا سسٹم کی اولین ترجیح تھی۔
اب وقت یہ ہے کہ ایک تھانے کا ایس ایچ او اسے ہانک کر لے گیا۔ یعنی صاحب کی نظر میں سابقہ لاڈلے کی کوئی اہمیت نہیںبلکہ سابقہ لاڈلوں کیلئے اصول طے ہے کہ پبلک میں رو کر دکھاؤ گے تو آسانی ہوگی۔ معافی یا لاڈ پھر بھی نہیں ملے گا۔دوسری طرف ایک اور لاڈلا شوکت ترین ہے بلکہ ایک لاڈلے زردار کے لاڈلے کا سمدھی ہے تو ایف آئی اے کی تمام تر کارروائی کی تکمیل کے باوجود آرام سے ملک چھوڑ گیا ہے۔ شہباز شریف سے کہا گیا تھا کہ نواز شریف کے خلاف کام کرو گے تو وزارت عظمیٰ مل جائے گی ، پھر جب کسی بھی قسم کی وفا اور اصول سے تائب ہو ئے تو وزیراعظم بن گئے، اسی طرح عہد حاضر کا مہا لاڈلا عمران خان ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کی مرضی کے خلاف ان کے روبرو ان کی طبع کے خلاف سوال ہی کرسکے۔ ایک طرف ان لاڈلوں کے چونچلے ہیں اور دوسری طرف ان کے ناز اٹھانے والے سسٹم کی شکار گاہ یہ ملک ہے۔ جس کا عام شہری ہلاکت خیز مہنگائی، تباہ کن بیروزگاری، حد سے زیادہ جرائم، عبرت ناک لاقانونیت اور قیامت خیز افراتفری کا شکار ہے۔ مگر افسوس کہ مین سٹریم میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی ترجیحات ان لاڈلوں کے چونچلے دیکھنا اور اس پر ہنسنا کھیلنا ہے جبکہ غریب عوام کی حالت زار سنوارنے پر کسی کی کوئی توجہ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button