ColumnNasir Sherazi

مستقل موسم ِ خزاں میں جشن ِ بہاراں ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ملک میں آٹے کا کال پڑے چھ ماہ سے زیادہ بیت گئے، دس کلو کے آٹے کا تھیلا حاصل کرنے والے متعدد مردوزن ہجوم کے قدموں تلے کچلے گئے کچھ ایسے بھی تھے جو تمام دن لائن میں لگے رہے ان کی باری آئی تو ٹرک پر چڑھے تقسیم کنندگان نے اعلان کردیا سب کچھ ختم ہوگیا ہے یہ سن کر چھ بچوں کے باپ کو دل کا دورہ پڑا وہ اسی جگہ دم توڑ گیا، اس کے گھر آٹے کا تھیلا نہ پہنچا گھر کے سربراہ کی لاش پہنچ گئی۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ، گورنر، حلقےکے ممبر قومی و صوبائی اسمبلی زیادہ ضروری کاموں میں مصروف تھے کسی کے پاس وقت نہ تھا کہ کوئی اِس اجڑ جانے والے خاندان کا حال پوچھتا، ملک کے کوچہ و بازار میں یہ منظر پہلی مرتبہ نہیں دیکھنے میں آیا، اس کا آغاز 1972 میں ہوا تھا، قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بتایاگیا تھا کہ یہ سب کچھ مشرقی پاکستانی کی علیحدگی کے سبب ہوا ہے، سب جانتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں گندم پیدا ہی نہیں ہوتی، وہاں تو بڑی فصل چاول کی ہوتی ہے، لہٰذا کمی ہوتی تو چاول کی ہوتی، معاملہ فقط ذخیرہ اندوزی کا تھا جس میں اناج کے سمگلر برابر کا حصہ ڈال رہے تھے، مشکل کا حل یہ نکالا گیا کہ راشن بندی کردی گئی آٹا، چینی، چاول، راشن ڈپو سے ملنے لگے، آٹا اور چینی عوام کی بنیادی ضرورت تھی، چاول مہنگی آئٹم تھی وہ بچ رہتے اور مارکیٹ میں مزید مہنگے داموں بک جاتے، چینی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا جعلی راشن کارڈز بنائے گئے، درجنوں افراد خانہ کا اندراج کیاگیا پھر ان کے نام کی چینی مارکیٹ میں بیچی گئی، اس کے بڑے خریدار مٹھائی بنانے والے اور بیکریاں چلانے والے تھے۔
پچاس برس قبل راشن ڈپو کے باہر یہ لائنیں لگتی تھیں، آج یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لگتی ہیں، جو کچھ راشن ڈپو کے مالکان کرتے تھے آج وہ سب کچھ یوٹیلٹی سٹورز پر ہورہا ہے، وقت بہت بدل گیا ہے، عام آدمی کے حالات نہیں بدلے، بدلنے کا امکان بھی نہیں ہے جنہوں نے حالات بدلنے ہیں وہی تو ملک اور اس کے باسیوں کو ان حالات سے دوچار کرنے کے ذمہ دار ہیں وہ حالات کیوں بدلنا چاہیں گے۔
اب ایک نظر ایک مختلف قطار پر، ماڈرن پڑھے لکھے متمول نوجوان مردوخواتین کی ایک طویل قطار ہے، ان میں بچے بھی شامل ہیں، سب آپس میں ہنسی مذاق کررہے ہیں، سب خوش باش ہیں کسی کے چہرے پر کسی قسم کی فکر یا پریشانی نہیں ہے، یہ سب سائیکلوں، موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر یہاں نہیں پہنچے بلکہ سب اپنی چمکتی کاروں میں یہاں آئے ہیں، کچھ کاریں ایسی ہیں جن کی مالیت 35 لاکھ روپئے ہے، قطار میں کھڑے ہر لڑکے اور لڑکی کے ہاتھ میں جدید ترین سیل فون ہے جس کی مالیات ایک سے دو لاکھ روپئے ہے سب کے تن پر اُجلا اور
قیمتی لباس ہے کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے اپنے آپ کو مزید متمول کلاس کا فرد ظاہر کرنے کے لیے اپنے گھٹنوں سے اپنی پتلونیں اور جینز پھاڑ رکھی ہیں بیشتر نے آنکھوں پر بڑے بڑے شیشوں والی عینکیں چڑھارکھی ہیں جن کے شیشے سے یہ تمام دنیا کو اپنی نظر سے دیکھ سکتے ہیں لیکن کوئی ان کی آنکھوں میں نہیں جھانک سکتا۔ سب لوگ دیسی ہیں لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ولایتی ثابت کرنے کے لیے مختلف سوانگ رچا رکھے ہیں جن میں بالوں کو سنہری، سرخ اور اپنے لباس کے رنگ میں رنگوایا ہے، یہ سب لوگ یہیں اسی ملک کی گلیوں میں پیدا ہوئے ہیں یہیں پلے بڑھے ہیں لیکن زیادہ پڑھے نہیں ہیں لہٰذا ملنے والے سے انگریزی میں گفتگو شروع کردیتے ہیں، آغاز ہیلو ہائے سے ہوتا ہے پھر دوسرے فقرے پر ان کی انگریزی ختم ہوجاتی ہے تو موسم کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں، آج تو ویدر بہت کولڈ ہے، قطار میں کھڑے یہ سب لوگ ایک نئی امریکن کافی شاپ کھلنے کے پہلے روز کافی پینے آئے ہیں جس کا ایک کپ سولہ سو روپئے میں بیچا جارہا ہے۔ کافی شاپ کے مالکان نے بتایا کہ اس کافی شاپ کے درجنوں ممالک میں سینکڑوں فرنچائز ہیں، لاہور میں کھلنے والے اس فرنچائز نے اپنے پہلے دن کی سیل کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے، دنیا میں کسی کافی شاپ نے ایک روز میں اتنا بزنس نہیں کیا۔
اس کافی شاپ پر کافی کا ایک کپ جس قیمت میں مل رہا ہےاِس قیمت میں غریب آدمی کو بیس کلو آٹے کا تھیلا نہیں مل رہا، کافی کا ایک کپ پینے کے بعد وہ انسان کے پیٹ میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ رہے گا جبکہ بیس کلو آٹے کا تھیلا غریب آدمی کے گھر میں کم ازکم دس دن تک اُس کے اہل خانہ کا پیٹ بھرے گا۔
کافی شاپ کے باہر لگی لائن اور یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لگی لائن پاکستان کا اصل چہرہ ہے یہی پاکستان کی تاریخ اور غالباً یہی پاکستان کا نصیب ہے جس میں تبدیلی کے دور دور تک اب کوئی آثار نہیں، چار برس قبل تبدیلی کا نعرہ ضرور سنا تھا لیکن قسمت انہی کی تبدیل ہوئی جو شریک سفر نہ تھے، ہماری ستر برس کی کہانی یہی ہے جو کام قیام پاکستان کے فوراً بعد کرنے کے تھے، ان کی جانب آئی ایم ایف نے پہلی مرتبہ توجہ دلائی ہے، لگتا ہے شیطانوں کے گروپ میں کوئی فرشتہ کہیں سے آگاہ ہے، حکومت پاکستان سے کہاگیا ہے کہ اپنی ڈوبتی نائو بچانا چاہتے ہو تو گریڈ سترہ سے لیکر گریڈ بائیس تک کے سرکاری افسران کے ملک کے اندر اور بیرون ملک اثاثے ظاہر کرو۔ اِس شرط کے بعد سے سرکارِ پاکستان کو مرگی کا دورہ پڑ چکا ہے، اس کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں ، ہاتھ پائوں مڑ گئے ہیں جبکہ ماتھے پر ندامت کے ساتھ ساتھ حماقت کا پسینہ ہے، اب کوشش کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف کو جل دے کر انکی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر دو چار خاص محکموں کو اِس فہرست سے نکال دیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ حکمران، عدلیہ اور افواج پاکستان کے افسروں کو اِس فہرست سے نکالنا چاہتے ہیں حالانکہ ان دونوں اداروں سے تعلق رکھنے والے افسران انتہائی دیانت دار، محب وطن اور ملک و قوم کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں پھر صرف ان کے اثاثوں کو خفیہ رکھنے کی ضرورت کیوں پیش نظر ہے۔ یہ فاسران ٹیکس باقاعدگی سے دیتے ہیں ان کے اثاثے رزق حلال سے بنائے گئے ہیں پس انہیں خفیہ رکھنے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
پاکستان کے ڈی فالٹ کی خبریں زبان زدِ عام ہیں سرکار ان کی بلاناغہ تردید کرتی رہتی ہے، عالمی ادارے فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کم کردی ہے، سٹاک مارکیٹ گذشتہ چھ ماہ میں بارہ مرتبہ کریش ہوئی، دو روز قبل ہونے والے کریش میں 75 ارب روپئے ڈوب گئے، زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کی ضرورت کے لیے رہ گئے ہیں جبکہ پاکستان کے افق پر چھائے مستقل موسم ِ خزاں کے باوجود جشن بہاراں منانے کی تیاریاں ہوچکی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button