ہم کدھر جا رہے ہیں؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
بات یہ ہے کہ آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان میںبسنے والے کسی پاکستانی کو معلوم نہیں کہ سیاسی شعبدہ بازوں،اسٹیبلشمنٹ اور مختلف سہولت کاروں کی مدد سے استحکام پاکستان سے زیادہ کس کس نے سبز باغ دکھا کر صرف اپنے مفادات کا کھیل کھیلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باصلاحیت لوگوں کی موجودگی میں بھی پوری قوم آئی ایم ایف کی انگلی پر ناچ رہی ہے۔ شوروغوغا بھی برپا ہے اور شرائط تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ کس نے کتنا لوٹا؟ کون کتنا کرپٹ ہے؟ قومی خزانے کے ڈاکوئوں کو کون الٹا لٹکائے گا کوئی نہیںجانتا، اقتدار میں آنے والے اپنی پارسائی کا راگ الاپتے ہوئے مخالفین کو الزامات کی بوچھاڑ سے زیر کر لیتے ہیں، پھر ایکشن ری پلے دیکھنے کو ملتا ہے۔ صرف ایک دوسرے کی جگہ تبدیل ہوتی ہے بلکہ ادھر کے بیانات ادھر اور ادھر کے ادھر ہو جاتے ہیں۔ تماشا جاری رہتا ہے، البتہ کردار بدلنے پر لوگوں کو کچھ اچھا کی امید ضرور ہوتی ہے لیکن یہ امید زیادہ دیرپا نہیں ہوتی، امید ٹوٹتے ہی نعرے، بیانات اور الزامات ادھر سے ادھر ہجرت کر جاتے ہیں، پھر بھی دعویدار یہی کہتے ہیں جو بھی کھلواڑ ہوا اس کا خاتمہ عظیم قومی مفاد میں کیا گیا جبکہ نئے آنے والے بھی جلد انہیں خطوط پر چلنا شروع کر دیتے ہیں جو ماضی میں ہو رہا تھا اس سے انہیں انیس بیس کے فرق سے کچھ نیاکا دعویٰ ضرور کیا جاتا ہے، ہوتا ہرگز نہیں، کیونکہ سیاستدانوں کی مطلب پرستی، خواہشات اور حالات میں عوام الناس کے نام پر کئے گئے تمام فیصلے حقیقت میںعام آدمی کے نہیں، خاص آدمیوں کے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے کسی کو کچھ پتا نہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ ہماری حقیقی ترقی اور خوشحالی کی منزل کونسی ہے، سابق وزیراعظم عمران خان احتساب اور ریاست مدینہ کے نعرے پر یکساں انصاف کا نعرہ بلند کر کے اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پر سوار ہو کر طاقتوروں کی آنکھ کا تارا بنے تھے، عوامی رائے یہی تھی کہ نون لیگ اور پی پی نے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیا اس لیے تیسری سیاسی
طاقت تحریک انصاف اور اس کے صادق و امین چیئرمین عمران خان قومی مجرموں کو الٹا لٹکائیں گے لیکن ایک دوسرے سے بدلہ لینے کا دعویٰ کرنے والے ایک ہو گئے۔ اب خان اعظم چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سابق سپہ سالار جنرل باجوہ احتساب کے قائل نہیں تھے اسی لیے سب بچ گئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کرنے والے اب بھی نیوٹرل نہیں ہیں۔ مسٹر ایکس اینڈ وائی دھمکیاں دے رہے ہیں یعنی سیاست میں مداخلت جاری ہے ایسے میں منصوبہ بندی کے تحت صحافت کرنے والے صحافی افواہیں اڑا رہے ہیں کہ یہی حالات رہے تو نگران حکومتیں طویل مدتی بھی ہو سکتی ہیں، تاہم وزیراعظم شہباز شریف دعویدار ہیں کہ عمران خان کی ناقص پالیسیوں کی بدولت ملک خطرناک صورت حال تک پہنچا، ہم نے چیلنج سمجھ کر سنبھالا دیا، جلد ہم مہنگائی پر قابو پا لیں گے، لیکن اس یقین دہانی پر کسی کو اعتبار نہیں کیونکہ مہنگائی کا بوجھ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے اور کوئی یہ راز بتانے کو تیار نہیں کہ معاملات میں بہتری کب اور
کیسے آئے گی؟ اس لیے کہ مسائل کے سمندر میں پھنسے ہم لوگ لہروں اور حالات کے بہائو میں بہہ رہے ہیں لہٰذا کسی کو یہ معلوم نہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ پاکستانی عوام امریکہ بہادر کے ہمیشہ مخالف رہی لیکن حکمران ہمیشہ امریکہ کے گن گاتے رہے۔ عمران خان اپنے اقتدار کے خاتمے کو امریکی سازش سے جوڑتے ہیں وہ ٹرمپ کے الیکشن تک امریکہ کے حامی تھے لیکن ان کی شکست کے بعد مخالف ہو گئے کیونکہ جوبائیڈن نے پاکستانی سفارت خانے سے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ردعمل میں عمران خان کو منہ نہیں لگایا، پھر بیانیہ پروان چڑھایا گیا کہ روس کے دورے پر امریکہ عمران سے ناراض ہوا۔ اب نو ماہ کی کمزور حکومت نے روسیوں کو گھر بلا کر معاہدہ کر لیا۔ امریکہ نے رتی بھر ردعمل نہیں دیا۔ عوامی جمہوریہ چین ہمارا آزمودہ دوست ناراض کر کے عوامی خوش قسمتی کی شاہراہ سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے جاری کاموں میں تعطل پیدا کیا۔ ایسی صورت حال میں بھلا کیسے پتا چلے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟
ہم کدھر جا رہے ہیں؟ ہماری سمت درست ہے کہ نہیں، اس کا پتا تو جب ہی لگے گا جب ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کا خاتمہ ہو گا، فی الحال ایسا معاملہ نہیں۔ حکومت اور عمران خان ایک میز پر بیٹھنے کو تیار نہیںجبکہ عمران خان اس مسئلے کا حل بھی نیوٹرل کی مدد سے چاہتے ہیں۔دوسری جانب یہ فتویٰ بھی جاری کر رہے ہیں نیوٹرل ابھی بھی نیوٹرل نہیں۔ انہیں بھی ملک کے حالات کی طرح اپنی پارٹی کا بھی کچھ پتا نہیں، اعتباراور اعتماد کا فقدان پایا جا رہا ہے اور یہ بداعتمادی کی آگ مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی دونوں جانب ہے یعنی جمہوری جماعتوں میں بھی جمہوریت اور جمہوری اقدار ناپید ہے اسی لیے نواز شریف اور عمران خان کی قدر مشترک یہ ہے کہ نئے انتخابات کیلئے امیدواروں کا فیصلہ دونوں خود کرنا چاہتے ہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی میں آصف زرداری کی مضبوط گرفت کے باوجود اس طرح فیصلے نہیں کئے جاتے۔ اس ’’جمع تفریق‘‘ میں یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید آصف زرداری مطمئن ہیں انہیں پتا ہے کہ معاملات کہاں جا رہے ہیں اور ہم کدھر جا رہے ہیں؟ یقیناً وہ سیاسی شطرنج کے گھاگ کھلاڑی ہیں۔ ان کی سیاسی ریاضت بھی دوسروں سے اس قدر مختلف ہے کہ وہ بڑی سے بڑی تبدیلی اور مشکل فیصلہ ہنستے مسکراتے کر لیتے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے کہ وہ جمہوریت پر مکمل یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ بی بی شہید کے اس پیغام کو ازبر کر چکے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔ لہٰذا وہ سیاسی انتقام کا کبھی سوچتے بھی نہیں، شہباز شریف اور نواز شریف ماضی میں زرداری صاحب کو بہت کچھ کہہ چکے ہیں، زرداری صاحب پی ڈی ایم سے بھی باہر ہیں لیکن حکومتی اتحاد میں شامل ہیں۔پی ڈی ایم ضمنی انتخابات میں مقابلے کیلئے تیار نہیں لیکن آصف زرداری کھلا میدان چھوڑنے کو تیار نہیں، تاہم پنجاب کی خالی ہونے والی نشستوں پر الیکشن لڑنے کی ہدایت قائد نواز شریف نے کر دی ہے۔ یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی بعد میں ٹوٹی لیکن وہاں اپوزیشن اور حکومتی پارٹی نے سابق چیف سیکرٹری پر نہ صرف اتفاق کر لیا بلکہ وہاں اعظم خان نگران وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا کر اپنی سرگرمیوں میں مصروف بھی ہو چکے ہیں جبکہ پنجاب ایسا فیصلہ نہیں کر سکا اور حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا پڑا۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ حقائق کا اندازہ کرنے میں کسی کو دلچسپ نہیں، دو جمہوری حکومتیں اپنے اپنے وزرائے اعظم کو کھو کر بھی آئینی مدت پوری کر چکی لیکن تیسری جمہوریت ڈی ریل ہو گئی۔ اگر ان حالات میں بھی مائنس ون فارمولا تسلیم کر لیا جاتا تو عمرانی حکومت بھی شاید بچ جاتی لیکن خان اعظم ’’میں ‘‘سے شروع ہو کر ’’میں‘‘ پر ہی اختتام کے عادی ہیں اس لیے ون مین شو کے نتیجے میں خوار ہو گئے پھر بھی خوش ہیں کہ چس بڑی آئی ہے۔ ان کا وعدہ تھا کہ اقتدار سے نکالا گیا تو اور زیادہ خطرناک ہو جائوں گا لہٰذا یوٹرن کے منفرد ریکارڈز کے باوجود خطرناک ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جلسے کئے، لانگ مارچ بھی اور زخمی بھی ہوئے پھر بھی کسی لمحے ہارنہیں مانی، دوسروں کی پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں، یہی نہیں ابھی حکومت کی رخصتی کیلئے مزید مشکلات پیدا کرنے کیلئے پُرعزم ہیں۔ ملک خسارے میں اور حکومت معاشی بحران تلے دبی ہے، اس لیے عوامی ریلیف میں دینے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں لیکن اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کیلئے 18ارب الیکشن کمیشن کو دے دئیے گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات الگ الگ کرانے کیلئے دس ارب روپے کا اضافی خرچ کیا جائے گا۔ حکومت اپنی منصوبہ بندی کے مطابق معاملات سدھارنے کی فکر میں ہے لیکن اپوزیشن اور عمران خان کی سرگرمیوں نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہیں، پھر بھی دعویٰ ہے کہ مشکل حالات میں عمران خان حکومت کیلئے جو کھائی کھود رہے ہیں اس میں خود گریں گے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کن راہوں پر گامزن ہیں اور ہم کدھر جا رہے ہیں؟