ColumnQaisar Abbas

نرس کی موت ایک معمہ ؟ .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

کبیروالا کے مضافات میں ککڑہٹہ نام کا گاؤں زرخیز زمینوں اور نہری سنگم کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے جہاں پر لڑکیوں کی تعلیم کو ایک اضافی بوجھ کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ تین کم سن بچوں کی ماں سمیرا اسی گاؤں کے ایک گھر سے نکل کر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کبیروالا میں بطور نرس ڈیوٹی کرنے آتی تھی ۔ حسب معمول وہ جمعہ ستائیس جنوری کو بھی ڈیوٹی پر آئی ، اس نے حاضری لگائی اور پھر نہ جانے کہاں گئی ۔ وہ بعد از دوپہر جب واپس لائی گئی تو وہ نیم مردہ لاش بن چکی تھی اور اس کے بازو میں لگی آئی وی لائن بتا رہی تھی کہ کہیں نہ کہیں اس کی رگوں میں زندگی بچانے کے لیے موت انڈیلی جاتی رہی تھی ۔
نیم مردہ لائی گئی لاش کے منہ سے جب ماسک اتارا گیا تو ہسپتال کے سٹاف نے سمیرا کو پہچان لیا ۔ ان کی اپنی ساتھی قریب مرگ پڑی تھی اور کپڑے خون آلود تھے ، اس لیے پولیس کو بلایا گیا ۔ تھانہ سٹی کبیروالا کے اے ایس آئی نے سمیرا کو لانے والی گاڑی اور اس کے ڈرائیور کو تحویل میں لے جا کر تھانے میں بند کر دیا۔ چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ ایک سیلف میڈ سابق ایم پی اے نے گاڑی اور ڈرائیور کو اپنی سفارش پر آزاد کروا لیا اور پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ سمیرا کا شوہر ہومیو معالج خالد کارروائی نہیں کرانا چاہتا ۔
کچھ بنیادی میڈیکل ایڈ دے کر سمیرا کو نشتر ہسپتال ملتان ریفر کر دیا اور وہ پولیس کو بیان دئیے بغیر اتوار کی صبح دم توڑ گئی ۔ ابتدائی موقف میں ایم ایس ڈاکٹر عمارہ علی نے بتایا کہ ہسپتال سے باہر کے معاملات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، مگر یہ معاملہ تو دوران ڈیوٹی کا تھا اور انتظامی سربراہ کے طور پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہی پہلی جواب دہ تھی ۔
ہسپتال کے ہیومن ریسورس آفیسر ماجد کا مبینہ طور پر سمیرا سے گزشتہ چند سالوں کا تعلق تھا اور اس نے بطور آفیسر سمیرا کو شیشے میں اتار رکھا تھا ۔ موت کے بعد ، قتل کی وجوہات اور محرکات تک پہنچنا تیسری دنیا کے غاصب محکموں کے بس کا روگ نہیں ہوتا ۔ لوکیشن کی سائنسی جادو گری مرحومہ کو آخری بار تھانہ کہنہ کے مضافاتی چک 12 میں ظاہر کرتی ہے اور مبینہ طور پر یہ چک اسی ہسپتال کے ایچ آر آفیسر ماجد کا آبائی علاقہ ہے ۔
شنید ہے کہ مقتول اور مبینہ قاتل کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے اور کون نہیں جانتا کہ مردوں کی برادری میں مرنے والی ایک عورت تھی جس کی موت کا نقصان صرف ان تین بچوں کا ہوا ہے جو سمیرا کی اولاد تھے ۔ مقتولہ کو نیم مردہ حالت میں لائی جانے والی گاڑی وہ پہلی اکائی تھی جس کے ٹریکر کی مدد سے جائے وقوعہ تک پہنچا جا سکتا تھا اور دوسری اکائی سمیرا کا موبائل فون ، جو شاید اب ماجد کے ساتھ ہی روپوش ہو چکا ہوگا اور دونوں کو ایک ساتھ ہی برآمد کیا جائے گا ۔
سمیرا کے شوہر خالد نے ٹی ایچ کیو کبیروالا کے سٹاف پر عدم اطمینان کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم بھی ڈی ایچ کیو خانیوال سے کروایا ہے اور شاید مقدمہ کے اندراج کے لیے درخواست بھی دے دی ہوگی ۔ اب اگر برادری کا گٹھ جوڑ میت کی تدفین کے ساتھ مقدمہ بھی دفن کرنے پر تیار ہو جائے تو کیا ریاست کا حق نہیں بنتا کہ وہ مستغیث بنے اور تفتیش کے دائرہ کار کو قانون کے مطابق چلائے ، ویسے بھی پانچ لیٹر شراب پکڑ کر مقدمہ درج کر کے مدعی بننے والی پولیس ایک قتل کو کیونکر نظرانداز کر سکتی ہے ۔
حیرت ہے محکمہ صحت خانیوال کی طرف سے صرف انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے کوئی معطلی عمل میں نہیں آئی ۔ انکوائری کرنے والے بھی تو اسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں جو بعوض نقد پانچ ہزار سکہ رائج الوقت ، میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ کا حلیہ ایسے بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں کہ عدلیہ بھی چکرا جاتی ہے ۔
یہ صرف ایک نرس کا قتل نہیں ہوا ، ایک بیٹی اور پھر ماں کی لاش ہمارے نظام کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ یہ ہراسمنٹ اور اغوا ہے ، یہ انتظامی نا اہلی کی کوکھ سے نکلتا ہوا وہ جرم ہے جو ہسپتال جیسی جائے مسیحائی کی عمارت میں پروان چڑھتا رہا اور پھر لاش کی شکل میں اہالیان شہر کے ضمیروں میں گڑ گیا ۔
امید ہے ضلعی پولیس کے ذمہ دار افسر، ان حاضر سروس قاتلوں کے منہ پر پڑا ہوا نقاب اتار دینے میں کامیاب ہوںگے اور مقتولہ کے بازو پر لگی آئی وی لائن کے کاک پر چھپ چکے فنگر پرنٹ چک نمبر بارہ تک راستہ ہموار کر دیں گے ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button