
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرمیں کمی کے بعد حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35روپے اضافہ کیاگیا ہے اور اس اقدام سے آئی ایم ایف مذاکرات میں ڈیڈلاک ختم اور فنڈپروگرام کی راہ ہموارکرنےمیں پاکستان کو مددملنے کا یقین ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔عمران حکومت کی مچائی تباہی چھ ماہ میں ٹھیک نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہواہے، میاں نواز شریف اس فیصلے سے بڑے پریشان ہیں لیکن آئی ایم ایف لچک دکھانے یا رعایت دینے کو تیار نہیں، اسحق ڈار نے پوری مزاحمت کی اورآئی ایم ایف کی شرائط پرآسانی سے عمل درآمد نہیں کیابلکہ ڈالر کو آئی ایم ایف کی شرط پر ہی آزاد کیاگیا ہے اِس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود پاکستان میں قیمتیں کم کی گئی ہیں۔بلاشبہ چند روز سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کہیں40کہیں50اور 80روپے فی لیٹر تک اضافہ کی افواہیں گردش کر رہی تھیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت سامنے آنا شروع ہوگئی، ہر جگہ افراتفری کی صورت حال نظر آئی، پٹرول کے حصول کے لیے لمبی قطاریں بندھ گئیں تاہم جیسے ہی قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہوا اُسی وقت بند پٹرول پمپ کھل گئے کیونکہ مصنوعی قلت کا مقصد ہی منافع خوری تھا۔ کہاگیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ اوگرا کی تجویز پر کیا گیاتاکہ ملک میں عارضی ذخیرہ
اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔وزیرخزانہ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ اقتصادی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے اور بلاشبہ ابتک اِن تمام بڑے فیصلوں کا اطلاق صرف اُنہی پاکستانیوں پر کیا جارہا ہے جو پہلے ہی قابل رحم حالات میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے پاس ابھی بھی دس روپے فی لیٹر جگہ دستیاب ہے جس میں آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ پی ڈی ایل کو 50 روپے فی لیٹر تک بڑھایا جاسکے۔ بلاشبہ حکومت کے پاس آئی ایم یف کی شرائط کو تسلیم کرنے کے علاوہ کو ئی چوائس نہ تھی، لہٰذا پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کر دیاگیا ہے لیکن آئی ایم ایف نے صرف مہنگائی کرنے اور ٹیکس لگانے پر ہی زور نہیں دیا تھا بلکہ انہوں نے حکمرانوں سے اپنے اخراجات کم کرنے کی بھی مودبانہ استدعا کی تھی لیکن حکومت کے لیے یہی آسان راہ ہوتی ہے کہ سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیاجائے، بلاشبہ عالمی مالیاتی ادارے ریاستوں کو جکڑنے کا کارآمد ہتھیار ہوتے ہیں لیکن اُن کی شرائط میں کہیں یہ شامل نہیں ہوتا کہ ملک میں غریب کو مزید غریب تر کردیا جائے، لوگوں کو روٹی اور روزگار کے لیے ایک دوسرے کو نوچنے اور کاٹ کھانے پر مجبور کردیاجائے لہٰذا حکمران مالیاتی اداروں کی صرف انہی شرائط پر عمل کرتے ہیں جن کا تعلق عوام سے ہوتا ہے اور وہ شرائط ردی کی ٹوکری کی نذر کردی جاتی ہیں جن کا اطلاق حکمرانوں اور ان کی قریبی اشرافیہ پر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں امیر تو امیر تر لیکن غریب ، غریب تر ہورہا ہے کیونکہ اُس کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا، سفرِ زیست مشکل ترین ہوچکا ہے، اول تو روزگار میسر نہیں اگر کوئی برسرروزگار ہے تو اِس کی خون پسینے کی کمائی مالیاتی اداروں کی شرائط پوری کرنے کے اقدامات میں اُٹھ جاتی ہے۔ ہم بار بار مالیاتی اداروں سے جان چھڑانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں مگر کیا ہمارے حکمرانوں میں ملک و قوم کے لیے وہ اخلاص موجود ہے جس کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے؟ دراصل ہم اپنی کوتاہیوں کی ہی سزا بھگت رہے ہیں اور تب تک بھگتیں گے جب تک تمام حکمران ملک و قوم کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح نہیں دیتے۔ پٹرول مہنگا ہوگیا، مزید مہنگا ہوگا، اِس کے نتیجے میں بجلی بھی آنے والے دنوں میں مہنگی ہوگی اور گیس پہلے ہی دُگنی مہنگی کرکے مزید مہنگی کرنے کا عزم ظاہر کیا جاچکا ہے۔ صبح پٹرول مہنگا ہونے کا اعلان ہوا تو شام تک ہر انڈسٹری نے اِس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کا پیش منظر عوام کو لرزانے کے لیے سامنے رکھ دیا۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ گئے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا، متوسط پاکستانی ماچس سے لے کر خوراک اور ادویات تک جو بھی چیز خریدے گا اِس کو کئی گنا زیادہ مہنگی ملے گی۔ عام پاکستانی کیا کرے گا؟ انڈسٹریز کی تالہ بندی جاری رہے گی بچی کچھی صنعتوں کی مصنوعات کی لاگت بڑھ جائے گی پس یہاں بھی اشیا مہنگی ہوں گی اور بیرون ملک منڈی میں بھی اُن کے خریدار کم ہوںگے،غرضیکہ باہر والوں نے ہماری مُشکیں کس دی ہیں، بظاہر ہم ایک طرف سے نکلیں گے تو دوسری طرف دھنس جائیں گے، ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر چھوڑنا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے معیشت بحران سے نکلے گی،پھر کچھ دوست ممالک اور مالیاتی ادارے ہمیں اس وقت ڈالر دیں گے، لیکن پھر ہم اِس بحرانی کیفیت سے کیسے باہر نکلیں گے اور پھر اِس کے ثمرات عوام تک کیسے پہنچیں گے جبکہ صرف معاشی ہی نہیں سیاسی بحران بھی اپنے عروج پر ہے۔ ماضی میں ایسے مشکل حالات کا کبھی سنا اور نہ ہی کبھی سامنا کیا، جب ہم ایٹمی طاقت بننے کے لیے کوشاں تھے تب اور جب ہم نے ایٹمی دھماکے کیے اور پابندیوں کی زد میں آئے تب بھی ایسے مشکل حالات نہ تھے، جیسے اب دیکھے جارہے ہیں، بلاشبہ عالمی حالات اور تیزی سے بدلتی صورت حال معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے، قبل ازیں ہم کرونا وائرس کی وجہ سے بحرانوں میں تھے لیکن ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ موجودہ حالات ہماری کوتاہ اندیشی اور کج بحثی کا نتیجہ ہیں مگر خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔