ادبتازہ ترینخبریں

30جنوری یوم ولادت عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی

نظیر اکبر آبادی کا نام شیخ ولی محمد تھا۔ نظیر تخلص رکھ کر شاعری کی۔(1735-1740 کے عرصہ کے دوران پیدا ہوئے (ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کے مطابق نادر شاہ کے دہلی حملہ کے وقت پیدا ہوئے تھے) دلی میں پیدا ہو‎ئے۔ آپ کے والد کا نام محمد فاروق تھاجو اپنے والدکی بارہ اولادوں میں سے صرف ایک ہی بچے تھے۔ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والدہ کے ساتھ آگرہ منتقل ہو گئے اور محلّہ تاج گنج میں مقیم ہوئے۔ ایک مکتب سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ طبیعت میں موزونیت فطرت سے ملی تھی اس لیے شاعری شروع کی۔ نظیر ایک سادہ اور صوفی منش آدمی تھے، ان کی ساری عمر معلمی میں بسر ہوئی۔ وہ قناعت پسند تھے، بھرت پور کے حکمرانوں نے دعوت نامے بھیجے پر انہوں نے قبول نہ کیے۔ وہ کسی دربار سے وابستہ نہیں ہوئے، آخری عمر میں فالج کی حالت میں مبتلا ہوئے اور 1830ء میں انتقال کرگئے۔ آپکا مزار دہلی میں ہے۔ اردو کی نئ کتاب ہائی اسکول(اترپردیش)نصاب میں شامل کتاب میں نظیر کی تاریخ پیدائش 30جموری 1735درج ہے ۔

شاعری

نظیر اکبر آبادی کی شاعری اپنی علاحدہ دنیا رکھتی تھی۔ انہوں نے میر وسودا کی بہارسخن بھی دیکھی اور دبستان لکھنؤ کی جوانی کا نکھار بھی لیکن ان کی آزاد منشی اور منفرد رنگ طبیعت نے انہیں کسی دبستان کا پابند نہیں ہونے دیا۔ آپکو آٹھ زبانوں پر عبور تھا۔ عربی فارسی اردو پنجابی بھاشا مارواڑی پوربی اور ہندی۔.. مشہور نظموں میں مفلسی، آدمی نامہ، روٹیاں، بنجارا نامہ برسات کی بہاریں وغیرہ شامل ہیں۔

عوامی شاعر

نظیر اکبر آبادی کو بجا طور پر اردو کاپہلا عوامی شاعر تسلیم کیا جاسکتا ہے وہ زندگی کے ہر پہلو پر گہری دلچسپی سے غور کرتے، شدت سے محسوس کرتے اور پھر اسے شاعری کا جامہ پہنا دیتے۔ وہ عوام کے شاعر تھے اور انھیں کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے۔ عوامی رنگ رلیوں، چہل پہل، تفریح وغیرہ میں شوق و ذوق سے شریک ہوتے۔ اردو کے دوسرے شعرا کے یہاں فلسفہ ہے، تغزل ہے۔ لفظی و معنوی صنائع ہیں۔ جن سے اہل علم لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ان پڑھ انہیں سمجھ نہیں پاتے کیونکہ ان میں عوام کے دلوں کی دھڑکنیں نہیں ہوتیں۔ نظیر عوام کے شاعر تھے نیز وہ خالص ہندوستانی شاعر تھے۔ وہ ہندو مسلمان سب کے غم و ماتم میں شریک ہوتے۔ عید، شب برات، ہولی، دیوالی، دسہرہ غرض ہر تہوار پر نظمیں لکھتے تھے۔ ایک طرف خواجہ معین الدین چشتی کی تعریف کرتے تو دوسری طرف گرونانک کو بھی نذرعقیدت پیش کرتے ہیں۔ آپکو لسان العصر عوامی شاعر اور اردو شاعری کا چاسر اور اردو کا شکیسپیر بھی کہا گیا۔.

کلام

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم

بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم

مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں

دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم

کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر

کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم

ہم کو پھنسنا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا

بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم

طاق ابرو میں صنم کے کیا خدائی رہ گئی

اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم

باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل

اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم

کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے اے نظیرؔ

تاکہ شادی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم

۔۔۔۔

کہا جو ہم نے ”ہمیں در سے کیوں اٹھاتے ہو”

کہا کہ اس لیے تم یاں جو غل مچاتے ہو”

کہا ”لڑاتے ہو کیوں ہم سے غیر کو ہمدم”

کہا کہ ”تم بھی تو ہم سے نگہ لڑاتے ہو”

کہا جو حال دل اپنا تو اس نے ہنس ہنس کر

کہا ”غلط ہے یہ باتیں جو تم بناتے ہو”

کہا ”جتاتے ہو کیوں ہم سے روز ناز و ادا”

کہا کہ ”تم بھی تو چاہت ہمیں جتاتے ہو”

کہا کہ ”عرض کریں ہم پہ جو گزرتا ہے؟”

کہا ”خبر ہے ہمیں کیوں زباں پہ لاتے ہو”

کہا کہ ”روٹھے ہو کیوں ہم سے کیا سبب اس کا”

کہا ”سبب ہے یہی تم جو دل چھپاتے ہو”

کہا کہ ”ہم نہیں آنے کے یاں” تو اس نے نظیرؔ

کہا کہ ”سوچو تو کیا آپ سے تم آتے ہو”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کا ہے یہ تیوہار
کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار
کھولنے کھیلوں تماشوں کا گرم ہے بازار
ہر ایک دکان میں چراغ کی ہو رہی ہے بہار
سبھوں کو صرف ہے اب جابجا دیوالی کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی نظم آدمی نامہ سے ایک بند ملاحظہ ہو :

چلتا ہے آدمی ہی مسافر ہو ، لے کے مال
او ر آدمی ہے مارے ہے پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے اور آدم ہی جال
سچا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹ کا بھرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button