ColumnImtiaz Ahmad Shad

کامیابی وناکامی ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

ہرشخص میں فطری خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ ایک کام یاب انسان کی حیثیت سے زندگی گزارے۔ وہ جوبھی منصوبے بنائے وہ پورے ہوں، جن چیزوںکی تمنا کرے وہ حاصل ہوں اور جس منزل تک پہنچنے کا ارادہ کرے بلاروک ٹوک وہاں تک پہنچ جائے۔ اگروہ اپنی منزل مقصودتک رسائی حاصل کرلیتاہے اور اپنے گوہر مقصود کو پالیتا ہے تو خودکوکام یاب اورخوش قسمت انسان سمجھتاہے اوراگراس کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اور اس کی تمنائیں پوری نہیں ہوپاتیں تووہ خود کوناکام انسان باورکرتاہے اوراپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتا ہے لیکن مختلف انسانوں نے کامیابی کے الگ الگ معیارات اورپیمانے بنارکھے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک کامیابی یہ ہے کہ ان کے پاس مال ودولت کی ریل پیل ہو،انہیں ہرطرح کی آسائشیں حاصل ہوں،اسباب ووسائل کی فراوانی ہو،کشادہ،آرام دہ اورخوب صورت بنگلے،لگژری گاڑیاں اورحاضرباش خدمت گزارہوں،انہیںجاہ ومنصب حاصل ہو، سماج میں انہیں عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو، لوگ ان کی قدرکرتے اوران کے آگے پیچھے لگے رہتے ہوں،ان کی تجارت زوروںپر ہو،ان کی آمدنی میں روزبہ روز اضافہ ہورہاہواوران کا بینک بیلنس بڑھ رہاہو۔کچھ لوگ جسمانی صحت اورذہنی سکون کوکامیابی کاپیمانہ قراردیتے ہیں۔ان کے نزدیک اگرکوئی شخص مکمل طورپر صحت مندہو،اسے کسی طرح کاکوئی مرض یاعارضہ لاحق نہ ہو،وہ ہرطرح کی ذہنی اورنفسیاتی پریشانیوںسے محفوظ ہو اورسکون واطمینان کی زندگی گزاررہاہوتووہ کام یاب ہے۔ بعض لوگوںکی نظرمیں کسی شخص کی کام یابی یہ ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے خاندان کوپھلتا پھولتااوراپنی اولاداورمتعلقین کو ترقی کرتا ہوا دیکھ لے۔ غرض مختلف انسانوں کے نزدیک کام یابی کے الگ الگ پیمانے ہیں،جن پر وہ اپنے اور دوسروں کے معاملات کوجانچتے ہیں اوراُسی کے مطابق کام یابی یاناکامی کافیصلہ کرتے ہیں۔انسان کی ایک فطری خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ اس نے کامیابی کا جومعیارمقررکیاہے وہ اسے ہمیشہ حاصل رہے۔اگراس کے نزدیک مال و دولت کی فراوانی کام یابی کا اصل معیارہے توچاہتاہے کہ وہ ہمیشہ اسے حاصل رہے،کبھی اس سے محروم نہ ہو۔اگراس کی نظرمیں کام یابی اقتداراور حکمر انی سے عبارت ہے توآرزومندررہتاہے کہ اقتدارکی کنجیاں ہمیشہ اس کی مٹھی میں ہوں۔
اگرتجارت کے فروغ کووہ کام یابی سمجھتاہے توخواہش رکھتاہے کہ وہ برابرترقی کرتی رہے، کبھی اس میں خسارہ نہ ہو۔کسی بھی معاملے میں اگرتسلسل میں فرق پڑتاہے یاعارضی طورپر ہی سہی، وہ اس سے محروم ہوتاہے تواسے ناکامی تصور کرتا ہے۔ ان تمام انسانوںکی سوچ اسی دنیاکی زندگی تک محدودہے۔وہ اسی میں مگن اوراسی کوبہتربنانے کیلئے سرگرداں رہتے ہیں۔اس لیے کام یابی کے بارے میں ان کے تصورات بھی محدوداورناقص ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام زندگی کا ایک جامع تصوررکھتاہے۔اس لیے اس کا تصور کام یابی ان تمام تصورات سے یکسرمختلف اورممتازہے۔ ہر انسان اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، پلتا بڑھتا ہے، عمرکے مختلف مراحل سے گزرتاہے، یہاں تک کہ موت کی آغوش میں پہنچ جاتاہے۔اسلام کی نظرمیں یہ اس کی کل زندگی نہیں،بلکہ اس کا ایک مرحلہ ہے۔ مرنے کے بعداس کی زندگی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا،جسے وہ ’آخرت‘ کا نام دیتاہے۔اسلام کہتاہے کہ دنیاکی زندگی عارضی اورچندروزہ ہے،جبکہ آخرت کی زندگی ابدی اوردائمی ہوگی۔جولوگ دنیاکی زندگی ہی کوسب کچھ سمجھتے ہیں وہ دھوکے میں ہیں۔اسلام کہتاہے کہ اس دنیامیں انسان کاوجودکسی حادثے یااتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ اسے ایک قادرمطلق ہستی نے ایک منصوبے کے مطابق پیداکیاہے۔ اس کا مقصدتخلیق یہ ہے کہ وہ دنیا میں اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارے۔اس نے اپنے منتخب بندوں کے ذریعے،جنھیں ’رسول‘ کہا جاتا ہے، وہ طریقہ واضح الفاظ میں بیان کردیاہے۔سب سے آخرمیں اس نے حضرت محمدﷺ کو انسانوں کی رہنمائی کیلئے بھیجااوران پر اپنی کتاب قرآن اتاری،جس میں زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کھول کھول کربیان کردیاگیاہے،لیکن ساتھ ہی اس دنیامیں انسانوںکوارادہ واختیارکی آزادی بھی دی گئی ہے۔وہ چاہیں توحضرت محمد ﷺ اورقرآن مجیدپر ایمان لائیں اورچاہیں تو انکار کردیں۔ چاہیں توان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں اورچاہیں تواپنی مرضی چلائیں۔ اسلام واضح کرتاہے کہ اس دنیامیں انسان امتحان اور آزمائش کی حالت میں ہے۔ اگروہ یہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارے گاتواللہ اس سے خوش ہوگا اورمرنے کے بعدکی زندگی میں اسے انعام سے نوازے گا اوراگریہاں وہ اس طریقے کی خلاف ورزی کرے گا اورمن مانی کرے گا تواللہ اس سے ناراض ہوگا اورمرنے کے بعدکی زندگی میں اسے سزادے گا۔انعام کے طورپر اسے جنت میں داخل کیاجائے گا اورسزاکے طورپر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔اسلام نے مرنے کے بعد کی زندگی کوبہت اہمیت دی ہے اوراس کے بارے میں بہت تفصیلی اورجزئی معلومات فراہم کی ہیں۔ وہ کہتاہے کہ تمام انسان آخرت میں رب العالمین کے سامنے پیش ہوں گے،ان سے دنیامیں ان کے کاموںکا حساب لیاجائے گا اوران کے اعمال کو تولا جائے گا۔جن لوگوںنے دنیامیں اچھے اورنیک اعمال کیے ہوں گے وہ کامیاب سمجھے جائیں گے اورانھیں جنت کا مستحق قراردیاجائے گا اورجن لوگوں نے دنیامیں برے کام کیے ہوںگے ان کے ناکام ہونے کااعلان کردیاجائے گا اوربہ طورسزا انہیں جہنم میں جھونک دیاجائے گا۔جنت میں جانے والوں کووہاں کون کون سی نعمتیں حاصل ہوں گی اورجہنم میں ڈالے جانے والوںکووہاں کتنی سخت تکلیفوںسے دو چارہونا پڑے گا،قرآن میں بہت تفصیل سے بیان کیاگیاہے۔اسلام کی نظرمیں حقیقی کامیابی،جسے وہ ’فلاح‘اور’فوز‘کے الفاظ سے تعبیرکرتاہے،یہ ہے کہ آخرت میںجب انسان کے اعمال تولے جائیں تواس کے اچھے کاموںکا پلڑابھاری ہوجائے اور اسے جنت کا مستحق قراردے دیاجائے۔ جس شخص کے اچھے کاموں کا پلڑاآخرت میں ہلکاہوگا اوراس کی بنا پر اسے جہنم ڈالاجائے گا،اسلام کے نزدیک وہ درحقیقت ناکام اورخسارے میں رہنے والا ہے۔

جواب دیں

Back to top button