Ali HassanColumn

مضبوط معیشت ، مستحکم سیاست ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

وزیراعظم شہباز شریف نے تلخ حقیقت بیان کی ہے کہ ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے ہاتھ میں کشکول ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے۔ 75 سالوں میں ہم نے اپنے وسائل اور وقت برباد کیا۔ احتجاج، عدم استحکام، شورشرابہ سے نقصان پہنچایا۔ 75 سال سے پاکستان کے تمام ادارے مل کر درست سمت جا رہے ہوتے تو آج ہم قرض سے چھٹکارا حاصل کرچکے ہوتے ۔ہم آئی ایم ایف کی شرائط میں جکڑے ہوئے ہیں ،9واںریو یو مکمل نہیں ہوا ،غریب پر مزید کتنا بوجھ ڈالیں۔ ہم اگر سنبھل جائیں اور یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے قائد اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اور ابھی بھی وقت ہے، پھر کوئی مشکل، مشکل نہیں رہے گی اور پاکستان اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگا۔آج پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے، اسے یہاں تک لانے میں حکمرانوں کا ہی کردار ہے۔ عام آدمی کا کیا عمل دخل۔ حکمران طبقہ ہے جواب دہ ہونا چا ہیے کہ پاکستان پر قرضوں کا اتنا بوجھ کیوں لادا گیا، اس کا جواز کیا تھا، ضرورت کیا تھی، اس سے پاکستان کو عملاً کیا فائدہ پہنچا۔ قرضہ لیتے وقت کسی نے غور کیا تھا کہ یہ قرضہ کی ادا ئیگی کیسے ہو گی اور خصوصاً موجودہ معاشی صورتحال میں اتارنے کی صورتحال کیا ہوگی۔ یہ سوال سب کیلئے سوچنے کا ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ کس طرح اترے گا؟ آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑے سری لنکا میں جو معاشی صورتحال وہاں کی حکمرانوں کی وجہ سے پیدا ہوئی اور جو کچھ ہوا اس کا نتیجہ سامنے آگیا ہے۔ بدترین معاشی بحران کے پیش نظر سری لنکا کے وزیر دفاع نے فوج کے حجم میں بڑی کمی کا اعلان کر دیاہے، اگلے برس سری لنکن فوج کی تعداد کم ہو کر 1 لاکھ 35 ہزار رہ جائے گی۔ 2030 میں فوج کے حجم کو مزید کم کرکے ایک لاکھ کر دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد 2030 تک ایک بہترین تکنیکی اور حکمت عملی والی متوازن دفاعی فورس تشکیل دینا ہے۔ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق سری لنکا کی مسلح افواج 2017 سے 2019 کے دوران 3 لاکھ 17 ہزار اہلکاروں پر مشتمل تھی۔پاکستان اپنی جی ڈی پی کا تین فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ بھارت جیسے ازلی پاکستان دشمن پڑوسی کی موجودگی میں کیا پاکستان سری لنکا جیسے کسی اقدام کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ بھارت کو پاکستانی حکمرانوں نے متعدد بار جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کی پیش کش کی لیکن بھارتی حکومتوں نے پیش کش کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان میں بھی ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو فوج کے حجم کو مختصر کرنے کا مطالبہ دہراتا ہے۔ ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف، یا دیگر غیر ملکی طاقت ور قوتیں اور عناصر، سب کی ایک ہی سوچ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرا دیا جائے۔ یوکرین کے ساتھ طاقت ور ممالک نے کیا کیا تھا۔ اسے تسلی دی گئی تھی کہ اپنی ایٹمی صلاحیت ختم کردو، کچھ ہوا تو مدد کیلئے ہم بیٹھیں ہیں۔ انہوں نے کتنی مدد کی یہ سب کے سامنے ہے۔
آج بھی سیاست دان گھمبیر سیاسی الجھنوں کا شکار ہیں۔ انہیں اقتدار کے حصول میں دلچسپی ہے یا پھر اپنی اپنی کرسیوں کو بچانے کی فکر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب ہی مستقبل سے بے خبر ہیں۔یا پھر دشوار گزار راستہ کو سہل راستہ تصور کر رہے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے یا نجات دلانے کیلئے کوئی قابل عمل تجویز پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیا وجہ ہے؟حالانکہ بیانات کی حد تک سیاست داں معاشی بحران پر اپنی تشویش کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ مسلم لیگ قاف کے صدر چوہدری شجاعت نے بلاول ہاؤس لاہور میں اتوار کے روز آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور پنجاب سمیت ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا،۔ دونوں رہنماؤں نے مسلم لیگ نون کی لیڈر شپ سے بھی رابطہ کیا۔ جو خبر جاری کی گئی اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے کام کی گفتگو کے بعددونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ ملکی معیشت کو اس وقت سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، سب کو مل کر پاکستان کے معاشی حالات کو کنٹرول کرنا ہے، پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی تو سیاست بھی ہوگی۔
کیا پاکستان کو در پیش معاشی بحران کا حل تلاش کرنا سرکاری افسران کی ذمہ داری ہے؟ بظاہر لگتا ہے کہ سب کا انحصار پاکستان کے سول ملازمین پر ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے خود بھی کہا۔ لاہور میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے پروبیشنری افسران کی پاسنگ آئوٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سول سرونٹس ملک کا مستقبل ہیں، وہ چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار ہوجائیں، سیاسی قیادت سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پبلک سرونٹس کو بے بنیاد الزام تراشی اور ان کے خلاف بلاجواز کیسز کے خوف سے نکالیں تاکہ وہ بلاخوف کام کرسکیں۔ ہماری بیوروکریسی نے ملک کو درپیش چیلنجز جس میں غربت، بیروزگاری، تعلیمی فقدان، کام کے عزم کی کمی سمیت دیگر چیلنجز شامل ہیں۔ ایسے افسران کو جانتے ہیں جو پاکستان کیلئے بڑی تندہی سے کام کیا لیکن ان میں سے بعض کو حقائق سے کوسوں دور وجوہات کی بنا پر بے بنیاد الزامات لگا کر انہیں زچ کیا گیا۔ سول ملازمین کو حکمرانوں نے اپنی اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق کام کرنے پر مجبور کیا، بہت کم ایسے افسران تھے جنہوں نے قانون سے ہٹ کر کام کرنے سے انکار کیا ۔ جواب میں انہیں دھمکیاں اور نقصان ہی برداشت کرنے پڑے۔ اس ملک میں جس سفاکانہ طریقہ سے بدنام کیا گیا، اگر کہا جائے کہ ذلیل کیا گیا تو غلط نہیں ہوگا۔ سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں نے سول افسران کو ٹھڈے مار مار کر دیوار سے اس طرح لگایا کہ جیسے وہ حکمرانوں نے ذاتی ملازم ہوں۔ یہ اتنا افسوس ناک ہوا کہ سندھ میں افسران پیپلز پارٹی کے ملازمین ہونے کا اور پنجاب میں نون لیگ کے ملازم ہونے کا تاثر دیتے ہیں،مختلف مقدمات میں افسران کے بارے میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے جو تبصرہ موجود ہیں وہ ثابت کرتے ہیں۔فوجی حکمرانوں نے بھی انہیں اپنی ’’ب‘‘ ٹیم بنا کر رکھا۔ ماضی میں پاکستان کے آئین میں سرکاری سول ملازمین کو تحفظ حاصل تھا جسے بھٹو نے ختم کیا۔ بھٹو نے سی ایس پی کیڈر ختم کیا۔مشرف نے اپنی ضرورت کے مطابق سرکاری افسران کو ڈھالنے کی کوشش کی۔ ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کر کے ایسا ڈی سی او بنایا گیا جس کے اختیار لپیٹ دیئے گئے تھے۔ بار بار کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے افسران نے اپنے رہے سہے اختیارات بھی استعمال کرنا چھوڑ دئے۔ انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند کیا۔ جب انہوں نے حکمرانوں کو ناجائز طریقوں سے پیسے بناتے دیکھا تو خود بھی ہاتھ رنگنے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے خود بھی مال میں اپنا حصہ بھی ہتھیایا، پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کے کیبنٹ ڈویژن سے اعداد و شمار لیے جا سکتے ہیں کہ کتنے افسران اس ملک سے غیر قانونی طور پر پیسہ بنانے کے بعد فرار ہو گئے اور کتنوں نے دوسرے ممالک کی دہری شہریت حاصل کی ہوئی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ بار بار تنبیہ کرتا رہا ہے لیکن کسی نے پرواہ نہیں کی۔ دہری شہریت کی وجہ سے افسران نے اپنی وفاداری کا سودا کر لیا اور اپنے نئے ملک کی طرف ان کے پلڑہ کا جھائو رہا۔ اب یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی اور غیر سیاسی حکمران اپنے قول و فعل سے ثابت نہیں کرتے کہ ان کی تمام تر وفاداری پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھی استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ وزیر اعظم خود کہتے ہیںکہ آج عملی میدان میں عملی کام کی ضرورت ہے، سول سرونٹس سے یہ توقع ہے اور پوری قوم کی نگاہیں ان کی طرف ہیں کہ آگے بڑھیں اور صحیح معنوں میں پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان بنائیں۔ مینار پاکستان کے سائے تلے برصغیر کے طول و ارض سے جمع ہونے والے مسلمانوں کے ذہن میں ایک ایسی مملکت کا تصور تھا جو دنیا میں مثالی ہو تاہم آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہم اگر سنبھل جائیں اور یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے قائد اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اور ابھی بھی وقت ہے، پھر کوئی مشکل، مشکل نہیں رہے گی اور پاکستان اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button