ColumnNasir Sherazi

سُرخ لائن سے بہت آگے .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

دنیا کی رفتار اور استعداد کار پر نظر ڈالیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ جاتی ہیں اس کے بعد پاکستان اور اہل ِ پاکستان کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
ناسا کے کینڈی سپیس سینٹر سے روانہ ہونے والا خلائی جہاز اورین چاند تک پہنچا پھر اس کے گرد چکر لگاکر 26 دن بعد زمین پر واپس آگیا، جہاز تیز ترین رفتار کے ساتھ زمین کی رینج میں داخل ہوا تو پیرا شوٹ کھول کر اس کی رفتار کم کی گئی پھر یہ میکسیکو کے قریب بحرالکاہل میں اُتر گیا، خلائی جہاز اورین کو جلدہی ایک نئے اور قدرے مشکل مشن پر بھیجا جائے گا اس مشن میں قریباً پچاس برس بعد انسانوں کو چاند کی سطح پر اُتارا جائے گا۔ خلائی جہاز جب زمین کے مدار میں داخل ہوا تو اُس کی رفتار 40 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ تھی، فضا سے رگڑ کھانے کے بعد اس کا بیرونی درجہ حرارب 13ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا جاتا ہے یوں یہ خلائی جہاز آگ کے دہکتے ہوئے انگارے سے آگے کی کوئی چیز بن جاتا ہے۔
اورین خلائی جہاز 26روز میں چاند کو چھوکر آگیا ہم ان 26 دنوں میں صرف یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد قومی اسمبلی ٹوٹنی چاہیے یا نہیں۔ صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد آئین اور قانون کی رو سے صرف انہی صوبوں میں انتخابات ہوں گے یا قومی اسمبلی کو توڑ کر ملک بھر میں انتخابات ضروری ہیں جو مختلف سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ اس بات پر متفق نہیں ہوسکے کہ جہاںجس پارٹی کی اکثریت موجود ہے، اسے وہاں اپنی حکومت جاری رکھنی چاہیے اور پانچ برس کیلئے دیئے گئے مینڈیٹ کے خاتمے پر نئے انتخابات کرائے جائیں۔ ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شکست کھاگیا تو جیتنے والے کے مینڈیٹ کو کھلے دل سے تسلیم کرے گا اور ایک نیا راگ شروع نہیں کرے گا کہ ہم الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی جھرلو الیکشن ہوا ہے۔
ٹرم پوری ہونے سے قبل نئے انتخابات کا شوق بڑھاپے کی شادی کے شوق کی طرح ہے، جس کا انجام کبھی بخیر نہیں ہوتا، لیکن کیا کیا جائے حقیقی زندگی میں تین مرتبہ دولہا بننے کا شوق پورا کرنے والے تیسری مرتبہ سیاسی دولہا بننے کا شوق پورا کرلیں، انتخابات تو ابھی کچھ ماہ کے فاصلے پر ہیں لیکن ان کے نتائج ملک کے درودیوار پر واضح طور پر لکھے نظر آتے ہیں، ان انتخابات کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو ایک سیاسی جماعت کے دماغ سے مقبول ترین جماعت ہونے اور الیکشن سوئپ کرنے کا خناس نکل جائے گا۔
سیاسی ون ڈے میچوں میں تحریک انصاف کی حلیف قائد اعظم مسلم لیگ کے آل راونڈر کھلاڑی چودھری پرویز الٰہی کے سنبھل سنبھل کر کھیلنے سے دو ون ڈے میچوں کا فیصلہ ان کے حق میں ہوا ہے۔ بالخصوص دوسرے ون ڈے میچ میں تمام تر نامساعد حالات، خراب موسم، گیلی پچ ہونے کے باوجود انہوں نے 186 سکور کرکے بظاہر ہاتھ سے نکلا ہوا میچ جیت لیا ہے، وہ ناٹ آئوٹ بیٹسمین کے طور پر داد سمیٹنے میں مصروف ہیں جبکہ اسی اتحادی کو اب ٹیسٹ میچ کا سامنا ہے، جسے ایک بڑا سکور کرکے جیتنا تو شاید اس کے بس کی بات نہیں لیکن ان کی کوشش ہے کہ مخالف ٹیم کے چند کھلاڑیوں کو میچ میں شرکت سے دور رکھا جائے تو ٹیسٹ میچ کا فیصلہ ان کے حق میں ہوسکتا ہے، عمران خان نے دوسرا ون ڈے میچ گھر میں بیٹھ کر ٹی وی سکرینوں پر دیکھا، وہ اپنے بیانیے کے مطابق چار گولیاں ٹانگ میں لگنے کے باعث ریٹائرڈ ہرٹ کے لباس میں نظر آتے ہیں، ان کی ٹانگ پر بندھی پٹی ایک ہی ٹانگ پر بندھے رہنے کے بعد منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے دوسری ٹانگ کی طرف گئی تھی اب پھر پہلی والی ٹانگ پر لوٹ آئی ہے، تحریک انصاف کے سربراہ آئندہ الیکشن تک اپنی پارٹی کے سربراہ رہتے ہیں یا نہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن ان کی شدید خواہش اور کوشش ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح سے یہ ریلیف مل جائے۔ ان کا خیال اور منصوبہ بندی یہ ہے کہ جلد ازجلد انتخابات کی تاریخ مل جائے تاکہ وہ اپنی ٹانگ کی پٹی کے ساتھ لڑکھڑاتے، ڈولتے الیکشن کمپین کرتے نظر آئیں اور اسی بہانے عوام سے ہمدردی کا ووٹ اینٹھ لیں لیکن ان کے مخالفین کی طرف سے یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ جتنے عرصے میں ان کی ٹائم کے زخم نہیں بھرے اس عرصے میں تو محبت کے میچ میں شکست کھانے کے بعد دل کے گھائو بھی بھرجاتے ہیں۔ صدر پاکستان جناب عارف علوی نے سولہ جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے، جاری سیاسی صورت حال کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ اِس اجلاس کے بطن سے کوئی نیا چاند چڑھ سکتا ہے۔
عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں، لیکن یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھتا ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا، ٹوٹی اسمبلی جڑ بھی سکتی ہے، ہمدردی کے ووٹوں میں اضافے کیلئے تحریک انصاف کے ایک اتحادی نے درد بھرا راگ چھیڑا ہے، چند روز قبل قومی اردو روزنامے کے صفحہ اول پر خبر شائع کرائی گئی کہ عمران خان کو سلو پوائزننگ کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ خبر جناب شیخ رشید نے جاری کی جو ہمیشہ دور کی کوڑی لانے میں مشہور ہیں، یہ الگ بات کہ ان کی بیشتر باتیں سنسنی پھیلانے کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوتیں، شیخ رشید صاحب ہی اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ خان کو زہر دینے کا کام ان کے انتہائی قریبیوں کے علاوہ کون کرسکتا ہے کھانے پینے کے معاملات جن لوگوں کے سپرد ہوتے ہیں یا جن کے حوالے کیے جاتے ہیں ان میں شریک حیات، خانساماں، ویٹر، پرائیویٹ سیکرٹری یا گنتی کے کچھ لوگ جو جسم و جان و دل کے قریب ہوتے ہیں، ان کے علاوہ اگر کسی اور سے جان کو خطرہ ہوسکتا ہے، وہ زندگی کی حفاظت پر مامور گارڈز ہیں ۔ پس یہ ملاکر کوئی ایک درجن بھر افراد بنتے ہیں جن کی سکریننگ بہ آسانی ہوسکتی ہے۔ شیخ رشید کو چاہیے کو وہ یہ سکریننگ خود کریں اور اپنے محبوب رہنما کی زندگی کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
عمران خان کے حوالے سے ایک کالم نگار مرتضیٰ برلاس نے چند روز قبل جو کچھ لکھا وہ ایک قومی اخبار کے تیرہ جنوری کے ایڈیٹوریل صفحات پر شائع ہوا ہے جس کے بعد سعودی عرب، ایران کی حکومتوں کے علاوہ وزارت خارجہ حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ اہم اداروں کے زیرغور ہے، ایک فقرے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ حساس ترین گفتگو ہے جس کا تعلق مذکورہ تین ممالک سے ہے، اگر یہ سچ ہے تو سیکرٹ ایکٹ حرکت میں آسکتا ہے، اگر بے بنیاد اور جھوٹ ہے تو ملک کے خلاف سنگین سازش کے زمرے میں آئے گا۔ فیصلہ بہرحال اداروں کو ہی کرنا ہے۔ میرا خیال ہے معاملات ’’سرخ لائن‘‘ سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button