کیا ملک دیوالیہ ہورہا ہے ؟ .. علی حسن

علی حسن
فیڈرل بورڈ ریونیو کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے ایک نجی چینل پر حال ہی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ٹیکنیکل طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے ۔ جو باتیں آج کی جا رہی ہیں یہ میں نے دسمبر 2021 میں کہی تھیں۔ میں نے اس وقت ہی کہا تھا کہ پاکستان دیوالیہ کی طرف جا رہا ہے۔ اس وقت کوئی بھی ایسی سمت نہیں تھی جس سے معیشت کو درست کیا جا سکے ۔ اس وقت تو حکمرانوں اور خاص لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ سری لنکا کی صورت حال کے بعد بعض ذمہ دار لوگوں کی بھنوئیں تنی ضرور تھیں لیکن انہوں نے اس وقت بھی کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا تھا۔ ماہرین معیشت تو صورتحال کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن راقم جیسے عام آدمی نے بہت پہلے اپنے کالموں میں کئی اقدامات کی تجاویز پیش کی تھیں جن پر فوری عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر ’’ اسلام آباد میں اقتصادی ایمرجنسی کی تجویز زیر غور‘‘کے عنوان سے ایک پوسٹ وائرل کر رہی ہے۔ اس پوسٹ میں کئی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جو زیر غور بتائی جاتی ہیں۔ تمام اقتصادی سرگرمیوں کو صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک محدود رکھیںیعنی تمام بازار، کاروبار بشمول ریستوران وغیرہ شام 6 بجے بند ہوں گے۔ یہ قدم بہت پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا لیکن سیاسی جماعتیں اور حکمران اقدامات کرنے سے کترا تے رہتے ہیں۔ ذاتی گاڑی کے استعمال کو صرف 3 دن تک محدود کیا جائے یا کار میں 3 افراد کا ہونا ضروری ہے۔ (تمام صوبوں میں ٹریفک پولیس کے نفاذ کے معاملے پر ایک پلان بنانے کو کہا گیا ہے) ابھی بھی یہ فیصلہ نہیں کیا جارہا ہے کہ ملک میں پٹرول کی راشن بندی کی جائے گی، اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے تھا۔ خلیجی ریاستوں کیلئے غیر ملکی پروازوں کو نصف تک کم کریں اور ہر سفر کرنے والے مسافر کو سفر کا جواز پیش کرنا چاہیے۔ غیر ملکی کیریئرز پر ایک سال میں 2 سے زائد بین الاقوامی پروازوں کے پرانے نظام کو بھی بحال کریں، شہری کو پی آئی اے یا دیگر پاکستانی کیریئرز پر سفر کرنا ہوگا۔ اگر ٹیکس نمبر بکنگ کے وقت فراہم نہیں کیا گیا تو فلیٹ فیس پانچ ہزار روپے گھریلو سفر اوربین الاقوامی پروازوں کیلئے فیس عائد کی جائے گی اور بورڈنگ سے پہلے ہوائی اڈے پر جمع کی جائے گی، تمام سیلف فنانس شدہ حج و عمرہ اور زیارتوں کو روک دیا جائے گا، شہری کو وزارت مذہبی امور سے این او سی حاصل کرنا ضروری ہو گا ، اس کا تعین کرنے کیلئے خزانہ اور سفری تاریخ کا استعمال کیا جانا چاہیے ، بیرون ملک تعلیم کیلئے کوئی بھی ڈالر کی ترسیل صرف ٹیکس کی رقم سے ہوگی۔ اگر آپ کے ٹیکس گوشواروں میں شہریوں کی کسی بچے کی بیرون ملک تعلیم کی فنڈنگ کرنے کی اہلیت کا جواز نہیں بنتا ہے تو اس لین دین کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک بھر میں منی ایکس چینجوں پر کم از کم ایک سال کی بندش عائد کی جائے گی، صرف بینکوں کو ہی کرنسی تبدیل کرنے کی اجازت دی جائے گی جب کہ سٹیٹ بینک کی طرف سے مستعدی کی تیاری کی جا رہی ہے،
ضروری درآمدات کو ترجیح دی جائےگی، تمام ایل سی کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق درجہ بندی کی جائیگی ۔ جب تک برآمد کنندہ برآمد کیلئے تصدیق شدہ آرڈرز کے ساتھ درآمد کا جواز پیش نہیں کرتا، کوئی نئی مشینری یا پلانٹ کی درآمد کی ایل سی نہیں کھولی جائے گی۔ تمام اندرونی تصفیے پاکستانی روپے میں جمع کیے جائیں گے، مقامی بینکوں میں موجود تمام غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کو عارضی ہولڈ پر رکھا جائے گا اور ایس بی پی کی مقرر کردہ شرح پر صرف پاکستانی روپے میں نکالا جائے گا۔ حکومت کے سرکاری غیر ملکی دوروں کو روک دیا جائے گا جب تک کہ میزبان ملک ادائیگی نہ کرے۔ دوطرفہ اہمیت کیلئے صرف سرکاری دورہ کم از کم امدادی عملے کے ساتھ کیا جائے گا اور کوئی نجی شہری یا خاندان کے افراد سفر نہیں کریں گے اور وزیر اعظم اور دیگر معززین سفر کیلئے صرف تجارتی پروازیں استعمال کریں گے جب تک کہ منزل کے پاس کوئی تجارتی ایئر لائن رابطہ نہ ہو۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر 22 نکاتی ابتدائی سمری بشمول اوپر دیئے گئے نکات پر وزارت خزانہ کو ہر سطح پر شدید مزاحمت کے ساتھ تجویز کیا گیا ہے۔ صورتحال سنگین ہے اور مثبت جذبات کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن حکام کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف تیزی سے سخت رویہ اختیار کر رہا ہے اور مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ایسے اقدامات کرنے کی ہدایت کی جار رہی ہے ۔ انتظامی افسران کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف غیر حقیقی اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے۔موجودہ حکومت ایسی تمام منفی تجاویز کا پوری طاقت سے مقابلہ کر رہی ہے لیکن اس طرح کے سخت اقدامات میں مزید تاخیر کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ دریں اثناء حکمران طبقہ خاموشی سے کاروبار قائم کر رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اپنی دولت بیرون ملک منتقل بھی کر رہے ہیں۔ لوگوں نے ڈالروں کی صورت میں پیسوں کو گھروں میں ذ خیرہ کئے ہوئے ہیں۔ ملک میں ڈالر موجود نہیں لیکن پاکستانی دولت مندوں کے ڈالر بیرون ملک اتنے موجود ہیں جو ملکی معیشت کیلئے بڑا سہارا بن سکتے ہیں ۔سٹیٹ بنک بھی ساری صورت حال سے پریشان ضرور ہے لیکن حکمرانوں کو کون سمجھائے۔ ڈالر مارکٹ میں موجود نہیں۔ بنک کاروباری مقاصد کیلئے بھی ڈالر دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ زر مبادلہ میں تیزی سے آنے والی کمی کی روک تھام کی ذمہ داری تو وزارت خزانہ پر عائد ہوتی ہے۔ وزارت خزانہ لوگوں کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس کا خیال ہوگا کہ ملک میں ہیجان پیدا ہوگا۔ ہیجان توبہر حال پیدا ہی ہوگا کہ اس کو روکنے کیلئے اقدامات ہی نظر نہیں آرہے ہیں۔
پاکستانی حکمرانوں کو انتہائی عجلت میں وہ تمام اقدامات کرنے چاہئیں جس سے اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے لیکن حکمران گہری نیند کا شکار ہیں۔ صرف 2 سال قبل ہی سری لنکا کی معیشت کو دنیا کے اس حصے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی معیشت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور آج سری لنکا کھنڈرات میں پڑا ہوا ہے۔ پاکستانیوں کیلئے آنے والے اہم اور بہت تکلیف دہ دن قرار دیئے جاتے ہیں لیکن ملک، قوم اور معیشت کو بچانے کیلئے کچھ کر ہی گزرنا ہوگا۔ جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔اقدامات کرنے میں تاخیر صورتحال کو گھبیر بنا رہی ہے۔ یہ گمبھیریت خاص لوگوں اور دولت مند سیاست دانوں کی زندگی پر کوئی فرق نہیں ڈال رہی ہے اور نہ ہی ڈالے گی۔ بقول شخصے ان کے گھروں میں ’’دانے‘‘ موجود ہیں، اس لیے انہیں کوئی خوف نہیں ۔ اگر ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے تو ان سب کی کوشش ہو گی کہ پاکستان سے باہر جانے والی پہلی فلائٹ کو پکڑ کر فرار ہو جائیں۔ معیشت کی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بجلی کا شدید بحران ہے، گیس کی زبردست قلت کا سامنا ہے، بڑی تعداد میں صنعتی ادارے بند ہورہے ہیں، ملازمین کی چھانٹی ہو رہی ہے، بر آمدات صفر ہو رہی ہیں اور در آمدات پر کوئی خاص کنٹرول عائد نہیں کیا گیا۔