ColumnHabib Ullah Qamar

بابری مسجدکی شہادت اور نئی سازشیں .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

بابری مسجد کی شہادت کو تیس برس گزر گئے ۔ہر سال چھ دسمبر کو جب اس کا یوم شہادت آتا ہے تو دنیابھر میں مسلمانوں کے زخم ایک بار پھر تازہ ہو جاتے ہیں۔ چھ دسمبر 1992ء کو تاریخی مسجد شہید کرنا کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں بلکہ ہندو انتہاپسندوں کی منظم اور سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔بابری مسجد کی تحقیقات کرنے والے جسٹس من موہن سنگھ لبراہن کیشن کی رپورٹ میں واضح طو رپر لکھا گیا کہ مسجد شہید کرنے کی سازش کرنے والے انتہاپسندوں کو اس وقت کی کانگریس حکومت اور وزیر اعظم نرسمہا رائو کا مکمل تعاون حاصل تھا ۔اسی طرح ہندو ستانی ایجنسیوں اور فوج کے افسر بھی باقاعدہ طور پر اس سانحہ میں ملوث تھے کیونکہ آر ایس ایس، بجرنگ دل، شیو سینا اور دیگر ہندو انتہاپسند تنظیموں کے جو دہشت گرد بابری مسجد شہید کرنے میں پیش پیش رہے، انہیں فوج کے اعلیٰ افسروں کی جانب سے تربیت دی گئی اور توڑ پھوڑ کرنے والے دستہ کا نام ’’لکشمن سینا‘‘ رکھا گیاتھا۔ یہ بھی آن ریکارڈ ہے کہ دہشت گردوں کو تربیت دینے والے فوجی افسران نے پلان بی بھی ترتیب دے رکھا تھا جس کے مطابق اگر توڑ پھوڑ کرنے والا دستہ کسی وجہ سے ناکام ہو تاہے تو مسجد کو ڈائنا میٹ سے اڑادیاجائے گا۔ یہ باتیں صرف جسٹس من موہن لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں ہی نہیں لکھی گئیں بلکہ بابری مسجد کی شہادت میں پیش پیش ہندو انتہا پسند تنظیموں کے مرکزی لیڈر مختلف مواقع پر دیے گئے انٹرویوز کے دوران بھی اپنے ان جرائم کا فخریہ انداز میں اقرار کرتے رہے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت میں لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اٹل بہاری واجپائی سمیت 86انتہاپسند وں کو ملوث قرار دیا گیاچونکہ اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے مرکزی و صوبائی حکومت متحد تھیں اس لئے پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود انتہاپسندوں کا ہاتھ روکنے کی سرے سے کوئی کوشش نہیں کی اور عملی طور پر ان کا ساتھ دیتی رہی۔کلیان سنگھ جو اترپردیش میں اس وقت وزیر اعلیٰ تھے، کہتے ہیں کہ میں نے خود ریاستی پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ بابری مسجد شہید کرنے کیلئے جمع ہونے والے انتہاپسندوں پر گولی نہ چلائیں اس لئے وہ خود کو بھی بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت میںہندو انتہاپسند تنظیم بی جے پی اور آر ایس ایس کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے اس لئے پچھلی دو دہائیوں سے بی جے پی رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پرخوب سیاست کر رہی ہے۔ ہندو ئوں کے جذبات کو یہ کہہ کر بھڑکایا جاتارہا ہے کہ کانگریس حکومت نے اپنے دور اقتدار میں رام مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا نہیں کیا تاہم ان کی حکومت اس کام کو ضرورپایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ گذشتہ انتخابات کے دوران امیت شاہ جیسے لیڈروں کی طرف سے واضح طور پر اس عزم کا اظہا رکیا جاتارہا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہندوئوں کی بڑی آرزو ہے اور یہ ہر حال میں تعمیر کیاجائے گا۔انتہا پسند تنظیم بی جے پی نے انتخابات سے قبل اپنے جس منشور کا اعلان کیا اس میں بھی بابری مسجدکی جگہ رام مندر کی تعمیر کااعلان بھی شامل تھا، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر رام مندر کی تعمیرکا عمل مکمل کرنے کیلئے پوری قوت صرف کی گئی۔ تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو ہندوستانی سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے کا تسلسل قرار دیا جارہا ہے۔ مودی سرکار نے اپنے دور حکومت میں بھارتی سپریم کورٹ پرمسلسل دبائو برقرار رکھا کہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ دے جس پر ہندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں قائم بنچ نے ہندوانتہاپسندوں کو خوش کرنے کیلئے فیصلہ سنایا اور ایک نئے فساد کی بنیاد رکھ دی۔اگرچہ عدالت کے روبروبابری مسجد کی تعمیر سے متعلق سبھی تاریخی حقائق رکھے گئے اور ہندوانتہاپسندوں کے پاس وہاں رام مندر کی تعمیر کا کوئی جواز نہیں تھا تاہم اس کے باوجود جس طرح بھارتی عدلیہ نے افضل گورو، اجمل قصاب اور مقبول بٹ جیسے شہداء کو بلاوجہ پھانسی کی سزائیں سنائیں اور کہا گیا کہ اگرچہ ثبوت تو نہیں لیکن انہوں نے ہندوستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے یہ فیصلے کئے ہیں بالکل اسی طرح بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کامتنازعہ فیصلہ سنایا گیاجو کہ اصل حقائق کے بالکل برعکس اور کسی طور درست نہیں تھا۔ اب ہندوستانی سپریم کورٹ کے اسی فیصلہ کو بنیاد بناتے ہوئے بی جے پی ، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وشواہندو پریشد جیسی انتہاپسند تنظیموں کے اہلکار دندناتے پھر رہے ہیں اور مسلمانوں کی میراث تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیرکا سلسلہ جاری ہے۔
ہندوانتہاپسندوں کی جانب سے کچھ عرصہ قبل شوشہ چھوڑا گیا کہ رام مندر کی تعمیر شروع کرتے وقت کھدائی کے دوران یہاں پہلے سے قائم مندر کی باقیات ملی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اس مقام پر پہلے بھی مندر ہی تھا۔بھارتی حکومت اور میڈیا کی طرف سے انتہاپسندوں کے اس جھوٹے دعوے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ دنیا کو دھوکہ دیا جاسکے کہ ہندوستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا اور یہ کہ مبینہ طور پر تاریخی بابری مسجد رام مند رکی جگہ پر ہی تعمیر کی جارہی ہے۔بی جے پی سرکار کی جانب سے ہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعدرام مندر کی تعمیر میں سخت بدعنوانی کے معاملات سامنے آئے ہیں اور اسے اب تک کا سب سے بڑا مذہبی گھپلا قرار دیا جارہا ہے۔ ہندوستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر شروع سے ہی ہندوانتہاپسند لیڈروں کیلئے دولت جمع کرنے کا ذریعہ رہا ہے۔ سابق وی پی سنگھ حکومت میں محکمہ انکم ٹیکس نے ہندوانتہاپسند وشواہندو پریشد کو ایک نوٹس جاری کیا تھا کہ اس نے یورپ اور امریکہ میں ہندوستانیوں سے خلاف ضابطہ بہت بڑے پیمانے پر دولت جمع کی ہے ۔ ایودھیا میں جوں متنازعہ مندر کی تعمیر بڑھ رہی ہے ہندو انتہا پسند مسلمانوں کا جینا دوبھر کررہے ہی اور دوسری مساجد کو بھی شہید کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
بی جے پی کی جانب سے ماضی میں مسلمانوں کو اس فارمولا پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈسپریم کورٹ میں دائر مقدمہ واپس لے اور ہندوئوں کو اسی جگہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی اجازت دے جہاں پہلے بابری مسجد تھی‘ اس کے بدلے میں وہ مسجد کی تعمیر کیلئے مندر کی جگہ سے دور ایودھیا میں ہی نہ صرف زمین دیں گے بلکہ اس مقصد کی خاطر وہ اپنے سروں پر اینٹیں اٹھانے کو بھی تیا رہیں۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموںنے ہر بار ان کے مطالبات کوٹھکرایا، یوںجب مودی حکومت کو ناکامی ہوئی تو ہندوستانی عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کروا لیا گیا۔بابری مسجد کی شہادت کوتیس برس گزر چکے لیکن جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ پر عمل نہیں کیا گیا۔ سی بی آئی نے اپنی تحقیقات میں جان بوجھ کر ایسی کمزوریاں پیدا کر دی تھیں کہ جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دارانتہاپسند عناصر قانون کی گرفت سے بچ نکلے ۔ ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ یعقوب میمن جیسے مسلمانوں پر بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر تحقیقات مکمل کئے بغیر پھانسی کے پھندے پرلٹکا دیا جاتا ہے تو دوسری جانب ہزاروں مسلمانوں کے قاتل اور بابری مسجد شہیدکرنے والوں کوتمام تر ثبوت ہونے کے باوجود بری کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔چھ دسمبر 1992ء بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ بابری مسجد کی شہادت محض ایک قطعہ زمین کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے مسلمانوں کا مذہبی تشخص اور بنیادی حقوق وابستہ ہیں۔مودی سرکار کو واضح طور پر بتانا ہوگاکہ وہ جس طرح کی مذموم حرکتیں جاری رکھے ہوئے ہیں انہی سے بھارتی معاشرے میں اشتعال پھیلتا ہے اور پھر ظلم میں پسے پرامن لوگ اپنی مساجدومدارس اور عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے ہتھیا راٹھانے پر مجبور ہو تے ہیں۔مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور مسجد کی جگہ کچھ اور تعمیر نہیں ہو سکتا۔ بی جے پی حکومت بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیرکے بعدبنارس کی گیان واپی اور متھراکی شاہی مسجد سمیت دوسری تاریخی مساجد کے خلاف بھی اسی طرح سازشیں کر رہی ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس حوالے سے اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔بھارت میں تاریخی مساجد کے تحفظ کیلئے ہندوانتہاپسند بی جے پی حکومت کے ظالمانہ فیصلوں اور ریاستی دہشت گردی کے آگے بند باندھنا بہت ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button