
جبار چودھری
سوال پورے ملین ڈالر کا ہے کہ کیاپاکستان کے موجودہ تمام مسائل کا حل صرف الیکشن میں ہے؟سوال تو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت جیسی بھی ہے اگرپٹری پرچلنے لگ ہی پڑی ہے ۔اسمبلیوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا آخرکار شروع کرہی دی ہے توپھراسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی انتخابات کیوں کروادیے جائیں اور ایسا کونسا بحران آکھڑا ہوا ہے کہ اسمبلی کی مدت قبل ازوقت ختم کے بغیر ٹلنے کا نہیں ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ فوری الیکشن کس کی خواہش اور کیوں ہے اور پھر سوال یہ بھی کہ اس وقت جب ملک کا دوتہائی سیلاب میں ڈوبا پڑاہے اور متاثرین کی بحالی کے لیے بہت سے وسائل اوروقت درکار ہے تو ملک میں الیکشن کیسے ممکن ہوسکتے ہیں۔
ان سوالوں کا ایک ایک کرکے جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا الیکشن ہونے سے سب ٹھیک ہو جائے گا تو اس پربھی بہت سے سوال ہیں۔ اس وقت عمران خان کو اپنی مقبولت کا زعم ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ اس پی ڈی ایم کے ناکام طرزحکمرانی کی بدولت ان کے چار سالہ دور کی ’’مثالی کارکردگی‘‘ بھی بھول چکے ہیں۔اس میں کافی حقیقت بھی ہے جو حال اس وقت معیشت کا ہے اس کو دیکھ کرتو اسد عمراورحماد اظہر جیسے ناکام ترین وزرابھی افلاطون لگنے لگے ہیں۔عمران خان کے دورحکومت میں نون لیگ کے رہنما مہنگائی کے موازنے کی فہرستیں جاری کیا کرتے تھے وہی کام آجکل عمران خان صاحب بھی کررہے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت عمران خان صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے اور انہیں تو پاکستان اتنی بری حالت میں ملاتھا کہ سن سینتالیس میں بھی اس کی حالت شاید بہتر تھی لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان، ان کو اتنی بہترین حالت میں دیا تھا لیکن ان لوگوں نے اس کو برباد کیا ہے۔
خیر اگر عمران خان کے مطالبے پرفوری الیکشن ہوبھی جاتے ہیں تو کیا بدل جائے گا ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر عام انتخابات کے نتیجے میں بھی الیکشن کے رزلٹ اسی طرح کے آگئے جو تقسیم اس وقت پائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کو سوا سے ڈیڑھ سو کے درمیان ہی نشستیں ملتی ہیں تو پھر کیا عمران خان ان الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرلیں گے؟اس بات کا جواب ایک موٹی’’ ناں ‘‘ہی ملے گا کیونکہ وہ اس وقت الیکشن کا مطالبہ ہی اس لیے کررہے ہیں کہ ان کے مطابق تو بیلٹ باکس سے ’’جن ‘‘نکلیں گے اور پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی جماعت شاید ایک نشست بھی جیت نہیں پائے گی اور اسی طرح کا نتیجہ ہی ان کے لیے قابل قبول ہوگااس کے علاوہ کوئی بھی رزلٹ وہ قبول نہیں کریں گے۔حالانکہ پاکستان کی آبادی اورنشستوں کی تقسیم کے موجودہ فارمولے کے تحت چاہے کوئی کتنا بھی مقبول ہواس کے لیے ملک میں دوتہائی حاصل کرنا جوئے شیرلانے جیسا ہی ہے۔پی ٹی آئی کا میدان پنجاب اورخیبر پختونخوا ہے ۔ پنجاب میں اس وقت وہ مقبول ہیں لیکن ایسے بھی حالات نہیں کہ نون لیگ کا مکمل صفایا ہی ہوگیا ہے اورخیبر پختونخوا میں بھی مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی کے لوگ صرف ہارنے کے لیے ہی میدان میں اتریں گے۔الیکشن جب بھی ہوگا رزلٹ تقسیم شدہ ہی آئیں گے اور حکومت بنانے کے لیے اگرکسی جماعت کو اکیلے سادہ اکثریت مل جائے تو بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
چلیں ہم فرض کرلیتے ہیں کہ الیکشن ہوگیا اورعمران خان صاحب وزیراعظم بن چکے ہیں ۔کیا ان کے وزیراعظم بننے سے ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا؟ تو جواب ہے کہ الیکشن میں ہارنے والے کوئی نیپال تو نہیں چلے جائیں گے نا؟نون لیگ بھی یہیں ہوگی، پیپلزپارٹی بھی اِدھر ہی ہوگی اور مولانا بھی پاکستان میں ہی ہوں گے اور خاموش بھی نہیں بیٹھ جائیں گے۔ان لوگوں کے پاس چلیں کم سہی لیکن سٹریٹ پاور تو موجود ہے کیا یہ لوگ عمران خان کی طرح جلسے جلوس کرنے سے باز آجائیں گے؟اگر ملک میں اسی طرح الیکشن کے بعد بھی احتجاجی ماحول ہی رہا تو پھر الیکشن سیاسی استحکام کی گارنٹی کیسے بن سکیں گے؟
چلیں ہم یہ بھی فرض کیے دیتے ہیں کہ ظاہری طورپرعمران خان صاحب کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا توکیا پاکستان میں ڈالروں کی بارش ہونا شروع ہوجائے گی؟جو ملک اس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور متاثرین کی بحالی کے لیے بیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے، کیا الیکشن کے نتائج آتے ہی سیلاب کا پانی غائب اور لوگ واپس اپنے گھروں میں جابسیں گے یا پھر عمران خان اعلان کردیں گے کہ یہ لوگ چونکہ ہماری حکومت سے پہلے سیلاب سے متاثر ہوئے تھے اس لیے ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ڈالر اس وقت مہنگا اس لیے ہے کہ بقول عمران خان ملک میں ڈالروں کی کمی ہے تو خان صاحب کے الیکشن میں کیا بیلٹ باکس سے کاغذ کے بیلٹ پیپرکے بجائے امریکی ڈالر نکل آئیں گے؟کیا عمران خان آتے ہی پہلے کی طرح آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکل آئیں گے؟کیا عمران خان آتے ہی پٹرول واپس ڈیڑھ سوروپے پرپہنچادیں گے؟ پاکستان کی قرض واپس کرنے کی صلاحیت جو خان صاحب کے بقول بیس فیصد منفی میں ہے، وہ پلس میں چلی جائے گی؟مہنگائی جو اس وقت سینتالیس فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے وہ سکڑ کرسنگل ڈیجٹ میں صرف اس لیے چلی جائے گی کہ ملک میں تبدیلی آگئی ہے؟
اگر یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوگا تو پھر کیا صرف اس لیے فوری انتخابات کروادیے جائیں کیونکہ عمران خان صاحب کو اقتدارواپس پانے کی جلدی ہے؟ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان فوری الیکشن کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس حکومت کی ناکامیوں پر بھی بات کرتے ہیں لیکن ان ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کا کوئی جامع پلان یا روڈ میپ نہیں دیتے ۔کیا صرف وزیراعظم کی کرسی پر شہبازشریف کی جگہ عمران خان کی تصویر لگانے سے پاکستان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟کیونکہ خان صاحب کے نزدیک تو حل صرف ان کی شخصیت ہے بس ان کو کرسی دے دی جائے اس کے بعد وہ بیٹھ کر سوچیں گے کہ کرنا کیا ہے بلکہ اسی طر ح جس طرح انہوں نے پچھلے دورمیں یہ سوچنے میں سال لگادیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں اورڈالر کے ریٹ کا ان کوٹی وی سے پتا چلتا تھا اور غریبوں کی حالت دیکھ کر ان کی اہلیہ ان کو بتایا کرتی تھیں کہ وہ اب وزیراعظم ہیں؟
یہ بات خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ مسائل کا حل فی الحال ان کے پاس نہیں ہے لیکن اس کا اعتراف نہیں کریں گے کہ انا کا مسئلہ ہے۔پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال ہے۔اور یہ بے یقینی اور عدم استحکام خان صاحب نے خود پیدا کررکھا ہے ۔اور آج خان صاحب اپوزیشن میں ہیں تو وہ مسئلے کا حصہ ہیں کل کو وہ حکومت میں ہوئے تو جو لوگ بھی اپوزیشن میں ہوں گے وہ اس مسئلے کا حصہ بن جائیں گے۔اصل مسئلہ سب کا کسی ایک نقطے پر اتفاق ہے اور وہ نقطہ ہے کہ معیشت پر سیاست کرنی ہے یامعیشت کوسیاست سے الگ رکھناہے۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہنا ہے۔گراتے رہنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی آگ پر پانی ڈالنا ہے یا تیل چھڑکتے رہنا ہے۔سفر سیدھی لیکرپر کرنا ہے تاکہ کوئی منزل مل سکے یا دائروں میں ہی گھومتے رہنا ہے۔ جب سب لوگ مل کر ان سوالوں کا جواب تلاش کرکے اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیں گے اس وقت مسائل کے حل کا آغاز ہوجائے گا۔پھر عمران خان صاحب ہوں یا پی ڈی ایم کسی کو بھی الیکشن پر اعتراض نہیں ہوگا۔۔