ڈوبے نہیں ڈبویا گیا؟ ۔۔ روشن لعل

روشن لعل
پاکستان میں ان دنوں خاص حلقوں کی طرف سے یہ خیال تیزی سے مقبول عام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگ ڈوبے نہیںبلکہ انہیں ڈبویا گیا ہے ۔پورے ملک میں عمومی اور سندھ میں خصوصی طور پر مذکورہ خیال کا اظہار دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ صوبہ سندھ میں ’’ ڈوبے نہیں ڈبوئے گئے ہیں‘‘ جیسی باتیں صرف پی ٹی آئی کے حلیم عادل شیخ ہی نہیںبلکہ خود کو دانشوروں کی فہرست میں شمار کرنے والے سیاستدان ایاز لطیف پلیجو بھی کررہے ہیں۔ اس طرح کی باتوں کو اندرون اور بیرون ملک دیا گیا یہ پیغام تصور کیا جارہا ہے کہ ہمارا ملک کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے ڈوبا ہے۔ حلیم عادل شیخ اور ایازلطیف پلیجو ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر جو کہہ رہے ہیں اس پربہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر اس وقت مذکورہ دونوں لوگوں کے موقف پر کوئی تبصرے کرنے کی بجائے زیادہ ضروری یہ ہے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی ان باتوں پر غور کیا جائے جو انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران لوگوں کے ڈوبنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کیں۔انتونیو گوتریس نے بھی بالواسطہ طور پر یہی کہا کہ پاکستانی ڈوبے نہیں بلکہ ڈبوئے گئے ہیں مگر ان کا زاویہ نگاہ حلیم عادل اور ایازلطیف کے انتہائی برعکس تھا۔ انتونیو گوتریس نے جو کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوںکے قتل عام جیسے اثرات دنیا میں کہیں نہیں دیکھے جس طرح
پاکستان میں نظر آرہے ہیں ۔ انتونیو گوتریس کی باتیں کس حد تک درست ہیں اس کا اندازہ برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے، جو انہوں نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ظاہر ہونے کے بعد دیا تھا۔ کلاڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسی صرف ایک فیصد گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار ہے جو دنیا کے ماحول کو تباہ کر رہی ہیں،یہ بات انتہائی نا مناسب ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی تمام تر تباہیوں کو تنہا برداشت کرے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے ذمہ دارامیر اور طاقتور ممالک ہیں ، پاکستان میں اس بحران کی وجہ سے تباہی برپا ہوئی ہے تو ان امیر اور طاقتور ملکوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا ازالہ کریں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے پاکستان کو بین الاقوامی امداد فراہم کی جائے۔ انتونیو گوتریس اور کلاڈیا ویب کی باتیں کس قدر درست ہیں یہ جاننے کیلئے ہم کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے پس منظرکو دیکھنا ہوگا۔
گلوبل وارمنگ میں اضافہ کا تصور 1896 میںسویڈن کے سائنسدان سوانتے آرہینس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے پیش کیا تھا کہ صنعتوں میں معدنی تیل اور کوئلے کے استعمال کے نتیجے میںدنیا کا اوسط درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔اپنی تھیوری میں آرہینس نے فضاء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور زمینی درجہ حرارت کے تعلق کی وضاحت کی تھی۔ اس نے دریافت کیا تھا کہ سطح زمین کا اوسط درجہ حرارت 15 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو کہ برف کے دور کے اوسط درجہ حرارت سے صرف 5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے ۔ اس کے بعد آر ہینس اور اس کے ساتھی چیمبر لین نے مشترکہ طور پر اپنی تحقیق سے یہ اخذ کیا تھا کہ انسانی افعال کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار فضاء میں بڑھ رہی ہے۔ 1896 میں یورپی صنعتوں کا تیار شدہ مال دھڑا دھڑ نوآبادیوں میں کھپت کیلئے بھیجا جا رہا تھا ۔ اس دور میں تمام تر صنعتی عمل کا دارو مدار معدنی تیل اور کوئلے پر تھا ۔ توانائی کے ان ذرائع کے متبادل ابھی سامنے نہیں آئے تھے اس لیے منافع کے حصول کی روش کے نیچے آرہینس اور چیمبر لین کی تھیوی قریباً ایک صدی تک دبی رہی۔
1988 میں گلوبل وارمنگ کی تھیوری کو اس وقت تسلیم کیا گیا جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ 1980 سے 1988 تک گلوبل وارمنگ میں درجہ
بدرجہ اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ اس صورتحال کو گرین ہائوس اثر پذیری (greenhouse effect ) کا نام دیا گیا ۔گرین ہائوس افیکٹ پر غور کرنے کیلئے اقوام متحدہ اورورلڈ میٹیرولوجیکل آرگنائزیشن کے تحت انٹرگورنمنٹ پینل آن کلائمنٹ چینج قائم کیا گیا ۔ آئی پی سی سی میں دنیا کے مختلف ممالک سے 2500 نامور سائنسدانوں کو شامل کیا گیا۔ سائنسدانوں کے اس پینل نے اپنے قیام کے بعد گرین ہائوس افیکٹ کے ممکنہ نقصانات کے بارے میں کئی خوفناک پیش گوئیاں کیں۔ آئی پی سی سی نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے 1992میں رپورٹ جاری کی جس کے مسودے میں پہلے 1996اوربعدازاں 2001میں ترامیم کی گئیں۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ میں خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ اگر گلوبل وارمنگ میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو لاطینی امریکہ میں رہنے والے کئی ملین اور افریقہ میں بسنے والے کئی سو ملین باشندے آئندہ کچھ دہائیوں کے بعد پانی کے ان ذرائع سے محروم ہو سکتے ہیں جو انہیں صدیوں قدرتی طور پر میسر ہیں،2050 کے بعد ایشیاء کے ایک بلین سے زیادہ لوگوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے ، 2030 میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پیدا ہونیوالی بیماریوں اور مضر صحت طریقوں سے پید ا ہونے والی خوراک کے استعمال سے اموات اور بیماریوں میں اضافہ کی شرح اس حد تک خطرناک ہو سکتی ہے جس کی مثال بڑی سے بڑی قدرتی آفت کی وجہ سے ہونیوالی تباہیوں میں بھی نہیں مل سکے گی، 2050 تک پورے یورپ کے چھوٹے گلیشیئرہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں جبکہ بڑے گلیشیئر حیرت انگیز حد تک چھوٹے ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح 2100 تک یورپ کے آدھے سے زیادہ درخت ختم ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا ۔ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں بھوک ااور قحط کے متعلق کہا گیا تھا کہ اس کی شدت اس قدر شدید ہو سکتی ہے کہ ایک ملک کے عوام کسی دوسرے ملک کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہ سکیں گے ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا امریکہ کے کچھ شہروں میں 2050 تک صورتحال اس حد تک خراب ہو سکتی ہے کہ اوزون اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہونیوالی اموات ہر اندازے سے تجاوز کرجائیں ۔آئی پی سی سی کی رپورٹ میں ان ڈرائونے خدشات کے باوجود اس بات کی گنجائش ظاہر کی گئی تھی کہ اگر گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے محرکات پر قابو پا لیا جائے تو گلوبل وارمنگ کے برے اثرات سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا، بین الاقوامی ماہرین پاکستان کے حالیہ سیلاب کو ان کے درست ثابت ہونے کی مثال کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بالواسطہ طور پر درست سمجھی جاسکتی ہے کہ ہم ڈوبے نہیں ڈبویا گیا ہے ۔جس بات کو بالواسطہ طور پر درست سمجھا جاسکتا ہے اسے ہمارے بعض ’’نابغے‘‘ اسے انتہائی غلط انداز میں بیان کر رہے ہیں۔