ColumnQadir Khan

سیاسی جنگ اور ملک گیری کی ہوس ۔۔ قادر خان یوسفزئی

قادر خان یوسف زئی

دو قومی نظریہ اسلام کا اساسی اصول ہے، اسے ہم کسی ذات، نسل کے حوالے سے تصور نہیں کر سکتے، لسانیت یا صوبائیت کے تصور کی وجہ سے مسلمانان ہند کیلئے ، دو قومی نظریہ کے تحت حاصل کردہ مملکت پاکستان کیلئے جہاں قائداعظمؒ دس برس تک جدوجہد کرتے رہے تو علامہ اقبالؒ نے دو قومی نظریہ کے مقاصد کیلئے جداگانہ مملکت کا تصور دیا۔ تشکیل پاکستان کے بعد یہاں کے ذمے دار ابنائے ملت نے اس سے مجرمانہ تغافل برتا، علامہ اقبال قومیت کے اس تصور کے خلاف رہے جس کی بنیاد رنگ، نسل، زبان یا وطن پر تھی، کیونکہ یہ حد بندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں، ان کی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب، وحدت تمدن و تاریخ ماضی اور پرامید مستقبل ہیں، جہاں تک بات مذہب کی، کی جائے تو اسلام اس ملت کی اساس ہے اور اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول توحید خدا ملی وحدت کا ضامن ہے۔
اس کا دوسرا رکن رسالت ﷺ ہے اور یہی دونوں اساس ملت ہیں، نہ کہ وطن جو جنگ اور ملک گیری کی ہوس پیدا کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں ملت بمعنی قوم استعمال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’ان گزارشات سے میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں، قرآن کریم میں مسلمانوں کیلئے امت کے سوا کوئی لفظ نہیں آیا ہے، ’’قوم‘‘ رجال کی جماعت کا نام ہے۔ یہ جماعت بااعتبار قبیلہ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اخلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ملت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ملت یا امت، جاذب ہے اقوام کی، خود ان میں جذب نہیں ہوتی۔روزنامہ مساوات اپنی 28 اکتوبر 1971ء کی اشاعت کے مقالہ افتتاحیہ میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے تمام باشندے ایک ہی پاکستانی قوم کے فرزند ہیں اور اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ جس کا جواب معاصر نوائے وقت نے اس طرح دیا تھا کہ پاکستان میں صرف ایک قوم ہے اور وہ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہے، باقی تمام غیر مسلم پاکستان کے شہری ہیں۔ حالانکہ روزنامہ مساوات اس سے قبل لکھ چکا تھا کہ پاکستان اس دو قومی نظریے کی پیداوار ہے جسے برصغیر پاک و ہند میں سراج الدولہ سے لے کر قائداعظمؒ تک ہمارے اکابر نے اپنے خون اور پسینے سے سینچا، دو قومی نظریہ ہی تھا۔
پاکستان کسی بھی نسل، ذات، لسانی یا صوبائی اکائی کی متروکہ میراث نہیں ہے بلکہ پاکستان بجا طور پر قائداعظمؒ کی میراث ہے، لیکن قائداعظمؒ کی اصل میراث دو قومی نظریہ ہے جس نے پاکستان کو جنم دیا اور جو خود انہیں ٹیپو سلطان، سید احمد شہید، سید احمد خاں فاتح دیر عمرا خان جندول، فاتح میوند محمد ایوب،محمد علی جوہر، حاجی صاحب ترنگزئی، خوشحال خان خٹک اور اقبال سے ورثے سے ملا تھا۔ اگر اس دو قومی نظریے کو لسانیت، نسلی عصبیت، صوبائیت یا فرقہ وارانہ تناظر میں لیا جائے تو دو قومی نظریہ پر زد پڑتی ہے اور پاکستان کے تمام وجود کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے اور ہماری جداگانہ قومیت کے نیچے سے زمین سرک جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے مارچ 1938ء میں ایک مضمون لکھا جس میں وطنیت کے مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ بحث کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ وہ کس قسم کی وطنیت کے مخالف ہیں۔ اقبالؒ لکھتے ہیں ’’میں نظریہ وطنیت کی تردید اس زمانہ سے کر رہا ہوں جب کہ دنیائے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریہ کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا، مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتدا ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کی دلی اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں نیرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے، چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
انسانی فکریت اور بت پرستی کی ایسی خوگر رہی ہے کہ جب ایک بت ٹوٹ جاتا ہے تو دوسرا نیا بت تراش لیتی ہے، نت نئے بت تراشنے کا سلسلہ قدیم زمانہ کی طرح آج بھی جاری ہے۔ ان بتوں کی شکلیں تھوڑی بہت بدل گئی ہوں تو بدل گئی ہوں، ورنہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آج انسانی گروہوں نے وطنیت کا نیا بت تراشا ہے، جس کے
آگے وہ سر بسجود ہیں۔ اس بت پر بلا تکلف و تامل انسانیت کو بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، چنانچہ اقبالؒ کا دعویٰ ہے کہ جس طرح دوسرے بت توڑے گئے، ضرور ہے کہ اب اس بت کو بھی توڑا جائے تا کہ انسانیت کی گلو خلاصی ہو۔اقبالؒ کا خیال ہے کہ جدید دور میں سامراجی ملوکیت وطنیت کے سیاسی تصور کا ہی کرشمہ ہے اس لیے وہ اس تصور کے اس پہلو کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ڈاکٹر یونس حسین اپنی کتاب ’’روح اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اقبال ملوکیت یا امپیرلزم کو ’جارحانہ وطنیت‘ ہی کا ایک شاخسانہ تصور کرتا ہے اور اس کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی رد خیال کرتا ہے، قومیت کے علمبرداروں کا نظریہ ’میرا وطن غلط ہو تو بھی صحیح ہے۔‘‘پاکستان میں شناخت کیلئے صرف ایک ہی اصول اپنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت پاکستان کا حصول ممکن بنایا گیا، اگر دو قومی نظریہ کا وجود نہیں تھا تو پاکستان کے قیام کیلئے اتنی جدوجہد کی کیا ضرورت تھی۔ ہندوستان میں بھی نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج کیے جاتے رہے ہیں اور کروڑوں مسلمان وہاں رہتے ہیں، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وطن کی بنیاد پر قوم کا تصور بنتا ہے تو پاکستان کے قیام کے نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے کہنا پڑے گا کہ وہ دو قومی نظریہ کے موید نہیں۔
دو قومی نظریے پر اعتراض کیا جاتا ہے لیکن یہ ضروری سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام نے جتنے حقوق بحیثیت انسان سب کو دیے ہیں اسی طرح غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو اسلام انہیں دیتا ہے، لیکن پاکستان میں دو قومی نظریہ کی جو درگت بنائی جا رہی ہے وہ ایک المیہ ہے۔دو کشتیوں کی اس سواری میں پاکستان کے شہریوں کو آدھا تیتر آدھا بیٹر بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذہبی فرقہ وارانہ و سیاسی کشیدگیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور شدت پسندی کا طوفان تھمنے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔جسے دیکھیں وہ اپنے نظریئے کے تحت قیام پاکستان کی وجوہ بیان کرتا ہے توکوئی پرانا پاکستان کو نیا بنانا چاہتا تو کوئی نہ جانے کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں ، اس سے قوم کو سمجھنے میں دشواری ہے کہ آخر ہمیں کس پاکستان کا خیال رکھنا ہے، اصل میراث والے پاکستان کا یا پھر نئے پاکستان کا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button