امتحان در امتحان .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
مالک کائنات کبھی کبھار کوئی مشکل دے کر اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ دنیا میں انسانیت ہے بھی کہ نہیں، آدم زادوں کو عقل سلیم دینے کا کوئی فائدہ بھی ہوا کہ یہ ابھی تک آدمی سے انسان نہیں بن سکے، صرف اشرف المخلوقات کے نشے میں ہی پھر رہے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ دنیاوی مال و دولت دنیا میں ہی رہ جاتا ہے پھر بھی خواہش ہر ایک کی یہی ہے کہ جائز ناجائز جس طرح سے بھی ممکن ہو ، مال پانی اکٹھا کر لو، ہم نہ بھی ہوئے تو بھی یہ اپنوں کے کام آئے گا۔ قبلہ حکم خالق ہے کہ خلق خدا کی بھلائی میں خرچ کر صرف ایک دوسرے کا سہارا بنو، فلاح کا کام کرنے والی ہی آخرت میں فلاح پائیں گے۔ پھر یہ بھی آدم زادوں کا خیال ہے آج کی فکر کرو، کل کس نے دیکھی؟ایسے لوگوں کو روز محشر کی یاد دہانی کرائو تو ان کے پاس ہزاروں تاویلیں ہیں ، خدائے بزرگ و برتر کسی کا محتاج نہیں، اسے ہمارے سجدوں کی ضرورت نہیں وہ الرحمان و رحیم ہی نہیں سب سے بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ بھلا مالک کُل اور اس کے بندے کا کیا مقابلہ؟ ہمیں وہ ہماری قسمت کالکھا اور محنت کا صلہ دیتا ہے ہماری ضرورت سے زیادہ ہو گا تو کسی کو دیں گے اپنا پیٹ کاٹ کر نہ دے سکتے ہیں ، نہ ہی حکم ہے؟ میں نے ایک صاحب سے یہ پوچھا یہ کہاں لکھا ہے کہ غریبوں کا مال کھا جائو؟ فرمانے لگے کہ جناب ہم صرف اپنا کھاتے ہیں، یہ ان سے پوچھیں جنہیں اللہ نے بے حساب دیا ہے۔ میں نے کہا کہ یقینا مخیر اور صاحب حیثیت لوگوں کو کارِ خیر میں زیادہ حصہ لینا چاہیے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے محدود وسائل میں سے بھی کچھ نہ کچھ ضرور نکالیں؟
بولے ’’واہ‘‘۔ ’’ہم نکالیں۔ اہل ثروت نکالیں جو غریبوں کی زکوۃ بھی کھا جاتے ہیں یا غریبوں کے نام پر بننے والے نجی اداروں کو دے دیتے ہیں۔ غریبوں کو نہیں دیتے اور نجی اداروں کے ذمہ داران ان رقوم سے پجارو اور پراڈو خرید کر موجیں مارتے ہیں۔میں نے کہاکہ یہ انداز بھی غلط ہے بلکہ افسوس ناک بھی۔ بولے کہ پھر بھی انہیں روکیں، ہمیں پیٹ کاٹ کر خلق خدا کی بھلائی کا درس نہ دیں۔میں نے پوچھاکہ جناب موجودہ دور میں سیلاب کی تباہی دکھائی نہیں دیتی، کیا ہمیں دوسروں کی طرف تکنا چاہیے، کم از کم جو خود کر سکتے ہیں اس سے نظریں کیوں چراتے ہیں؟‘‘کہنے لگے کہ اوّل تو یہ خالصتاً کام حکومت کا ہے ، دوئم اگر حکومت اپیل کرے یا مدد مانگے تو اہل ثروت سے رابطہ کرے، انہیں مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کرے۔میرا جواب تھاکہ وہ تو ماشاء اللہ دے رہے ہیں اور انشاء اللہ معاملات جلد کنٹرول میں آ جائیں گے۔ دوست ممالک بلکہ دشمن بھی انسانیت کے نام پر ساتھ دے رہے ہیں لیکن کیا ہم اپنی نیک کمائی سے اس نیکی کے کام میں کوئی حصّہ نہیں ڈال سکتے؟ایک لمبا سانس لے کر وہ بولے بھائی صاحب! ہم تو امتحان در امتحان دے رہے ہیں۔ پوری ہمت سمیت اور ذمہ داری سے کسی کو نظر نہ آئے تو میں کر کیا کر سکتا ہوں، محدود وسائل میں گزارا، صرف جائز ناجائز کا سوچا بھی نہیں، پھر بھی منافع خور مافیا ہم پر جگا ٹیکس وصول کر رہا ہے اور حکومت ٹیکس پر ٹیکس، نہ مہنگائی قابو میں ہے نہ ہی روزگار کے مواقع، ایسے حالات میں بھی زندہ ہیں یہ امتحان نہیں، جہاد نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم زندہ ہیں اس لیے جس کا جو دل چاہے کہہ لے، یہ انداز بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔میں نے کہاکہ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بحران میں سیلاب بڑا امتحان ہے۔ بارشوں نے تباہی مچا دی، لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہو گئی، فصلیں برباد ہو گئیں پہلے متاثرین کو جینے کیلئے امداد چاہیے پھر ان کی آباد کاری کا مرحلہ
اس سے بھی مشکل ہو گا، یقیناً یہ صرف متاثرین کا امتحان نہیں، حکومت کا بھی امتحان ہے۔کہنے لگے آپ درست فرما رہے ہیں پوری قوم ان لمحات میں اپنے سے زیادہ متاثرہ افراد کیلئے پریشان ہے۔ ہم غریب ملک ہونے کے باوجود ترقی یافتہ اور خوشحال قوموں سے زیادہ جذبہ حب الوطنی رکھتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے اور 2010کے سیلاب میں پاکستانیوں نے جسے جذبے سے خدمت مشن انجام دیا اس پر پوری دنیا نے خراج تحسین پیش کیا تھا لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی کثیر امداد کے باوجود ابھی تک بہت سے خاندان چھت سے محروم ہیں اس وقت وطن عزیز کا ساٹھ فی صد حصہ سیلاب کی زد میں ہے۔ یہ نقصان 2005ء کے زلزلے سے بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا زندگی گزارنے کیلئے فوری امدادکے علاوہ مستقبل کی مثبت منصوبہ بندی بھی درکار ہے کیونکہ ضمانت کو ئی نہیں دے سکتا کہ آئندہ سال سیلاب نہیں آئے گا یا دوبارہ سیلاب کب آئے گا؟ لہٰذا ایسے منصوبے وقت کی ضرورت ہے۔ اس لیے امدادی رقوم کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا، ماضی کی غلطیوں سے اگر کچھ نہیں سیکھا گیا تو پھر ریکارڈ امداد اور دنیا کی توجہ کے بعد بھی پاکستانی قوم کے امتحان در امتحان کبھی ختم نہیں ہو سکیں گے۔
بات درست ہے کہ امتحان اور بحران حقیقت میں مستقبل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ اگر ادراک ہو، حالات کی سنگینی سے کچھ سیکھا جائے،پاکستان کے وجود کو 75سال گزرچکے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوری حکمران تھے یا آمرانہ، سب نے وقت گزاری کی پالیسی اپنائی، اسی وجہ سے ابھی تک ’’ڈیم بنائو، ملک بچائو‘‘ کی بحث چل رہی ہے۔ کالا باغ ڈیم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت متنازعہ بنایا گیا، کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی مشینری ضائع کر دی گئی، صرف اس لیے کہ حکمران صوبہ خیبر پختونخوا اور
سندھ کو اجتماعی مفاد پر قائل نہیں کر سکے، ایسا بھی ہوا کہ حکمرانوں نے مخالف کے خوف میں کالا باغ ڈیم سے ایسے لاتعلقی کا اظہار کیا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اب تک کے آخری آمر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں قوم کو کالا باغ ڈیم بنانے کی یقین دہانی کرائی لیکن اپنے آٹھ سالہ دور میں رفتہ رفتہ مصلحت پسندی کا شکار ہو گئے اور بلاشرکت غیرے طاقت ور حکمران ہونے کے باوجود کالا باغ ڈیم پرخاموش تماشائی بنے رہے، سب جانتے ہیں کہ جمہوری ادوار کے مقابلے میں آمرانہ دور میں من مانی کرناآسان اس لیے ہوتا ہے کہ آمر ہمیشہ آئین اور قانون کو لپیٹ کر اقتدار میں آتا ہے جبکہ جمہوری دور آئین کی پاسداری کے بغیر ممکن نہیں ہوتا، اس میں اگر دوتہائی اکثریت نہ ہو تو ہر موقعے پر مشکلات کا سامنا مقدر بن جاتا ہے۔ اتحادیوں کے ناز نخرے برداشت کرنے بھی مجبوری ہوتی ہے، سو برسوں گزر گئے، کالا باغ ڈیم کا معاملہ حل نہیں ہو سکا۔ آج کے دور میں بھی سب کے سب اتفاق کرتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کیلئے ہمیں ہرصورت میں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے چاہئیںکیونکہ یہی واحد طریقہ ہے سیلاب سے بچنے اور رحمت باراں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کا، پھر بھی کالا باغ ڈیم پر کسی نے اتفاق پیدا کرنے کی ہمت نہیں کی، عمرانی حکومت میں چھوٹے ڈیمز کی حکمت عملی بنائی گئی۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے ’’پانی زندگی ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر خصوصی ڈیم فنڈز کی ملکی و بین الاقوامی تحریک چلائی ، قوم خوش تھی کہ اب ڈیم ضرور بنے گا۔انہوں نے ملکی اداروں کے علاوہ بیرونی دوروں سے بھی فنڈز جمع کئے لیکن اربوں اکٹھے ہونے کے باوجود مطلوبہ ٹارگٹ مکمل نہ کیا جا سکا۔ فنڈز سٹیٹ بینک کے محفوظ ہاتھوں میں دے دیا گیا پھر عمرانی حکومت نے فنڈز سمیت سٹیٹ بینک کو ہی آزادی دے دی، اس فیصلے کی عوامی اور سیاسی سطح پر بے تحاشا مخالفت ہوئی لیکن عمرانی حکومت اور منصوبہ بندی میں کچھ نہیں ہو سکا، کیونکہ آئینی ترمیم ہو چکی ، اب حکومت بدل چکی ہے تاہم وہ بھی کچھ نہیں کر سکتی، تاہم پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین پی ٹی آئی کے گھر کے بھیدی نور عالم نے یہ راز فاش کر دیا کہ ڈیم فنڈز کیلئے عزت مآب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار اور حکومت کی ایماء پر اس کی تشہیر پر اکٹھے کیے گئے فنڈز سے زیادہ خرچ کر دئیے ہیں۔ اس لیے وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر حساب دیں، ایسی صورت حال میں قومی خواب ایک بار پھر بکھر گئے۔ موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر قومی یکجہتی اور مشترکہ لائحہ عمل کے تحت ڈیم ایجنڈے پر سب کو رضامند کیا جائے۔ سندھ اور کے پی کے تحفظات ختم کر کے اگر کسی کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے تو اسے خصوصی مراعات کی پیش کش کی جائے بالکل اسی طرح جیسے منگلا ڈیم کے حوالے سے میرپور کے لوگوں کیلئے سہولیات دے کر نیا شہر بسایا گیا تھا کیونکہ قومی اور اجتماعی مفادات پر ہٹ دھرمی نہیں چلنے چاہیے۔ تاہم تنقید، طنز اور ضد سے کالا باغ ڈیم کا مسئلہ کھٹائی میں پڑا۔ لہٰذا اس سے پرہیز کریں، اس سلسلے میں سب کو یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ بے جا ناانصافی کے راستے بند کر کے اعتماد کی فضاء میں قومی فیصلے ممکن بنانے چاہئیں، تمام صوبے ایک گلدستے کی ماند جب ہی دکھائی دیں گے جب تحفظات ذمہ داری اور نیک نیتی سے دور کئے جائیں گے کسی کو کسی پر برتری نہ دی جائے بلکہ سہولیات اور مراعات میں کسی صوبے کو زیادہ فائدہ پہنچ جائے تو اسے رواداری اور مصلحت پسندی میں برداشت کیا جائے۔ اگر ایک بڑے سیلابی سانحے کے بعد بھی حکومت اور ذمہ داروں نے حالا ت سے کچھ نہ سیکھا تو پھر قوم، حکومت اور سیاستدان آئندہ 75سال بھی امتحان در امتحان میں گزار دیں گے جس طرح ہم نے ماضی میں کوتاہی کر کے بھارت کو ڈیمز بنا کر پاکستان کا پانی غصب کرنے کا موقع فراہم کیا تھا اور اس کی سزا ابھی تک بھگت رہے ہیں۔







