بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
ایسے وقت جب تمام ملکی ادارے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو محفوظ جگہوں پر پہنچانے اور ان کیلئے راشن کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ عدالت عظمیٰ نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے احکامات تو پی ٹی آئی دور میں دیئے تھے۔اب جبکہ سول اور عسکری ادارے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی بحالی میں مصروف ہیں تو چیف الیکشن کمشنر کو بلدیاتی انتخابات یاد آگئی۔جنوبی پنجاب کے کئی ایک اضلاع کے متاثرین کی بحالی کا کام جاری ہے سپہ سالار غم زدہ خاندانوں کو پرسا دینے کیلئے بنفس نفیس موجود ہوتے ہیں ۔سول بیوروکریسی ہنگامی بنیادوں پر متاثرین کی بحالی کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ چیف الیکشن کمشنر لوکل باڈیز رولز،یونین کونسلز کی تعداد،وارڈز ،حدبندیوں اور نقشوں کا نوٹیفکیشن طلب کر رہے ہیں کمال تو یہ ہے تحریک انصاف کے دور میں انہیں عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کرانے کی یاد کیوں نہ آئی ۔جنرل پرویز مشرف کے دورمیں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام متعارف کرایا گیا جس کی بڑی خوبی یہ تھی اختیارات گراس روٹ لیول پر ہونے سے عوامی نمائندگان کو لوگوں کے مسائل حل کرنے میں آسانی تھی۔ضلعی ناظمین کے اجلاسوں میں متعلقہ محکموں کے افسران جواب دے ہوا کرتے تھے۔تحریک انصاف کے دور میں خیبر پختونخوا کی طرز پر ویلج کونسل کا نظام لانے کیلئے قانون سازی کے باوجو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔عجیب تماشا ہے بلدیاتی اداروں میں کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات کی بجائے فوری انتخابات پر زور دیا جا رہا ہے ۔شہباز شریف کے دور میں پنجاب کے بعض اضلاع میں ایسے لوگوں کو میئر کے عہدے دیئے گئے جن کا میرٹ میاں صاحب کی اسیری کے دوران مٹھی چاپی کرنا تھا۔عوام کے پیسوں سے اربوں کی جائیدادیں بنانے والے آج بھی پنجاب میں شہباز شریف حکومت کے منتظر ہیں تاکہ وہ اپنی رہتی کسر پوری کر لیں۔اب ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع پر ۔ بلدیاتی اداروں میںعوامی نمائندوں کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ رہائشی جگہوں کو کمرشل کرانا ہے۔ پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں جا کر دیکھ لیں عوامی نمائندوں کی مبینہ ملی بھگت سے شہریوں کی زندگی اجیران بن گئی ہے۔ہم تو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی سے کہیں گے وہ صوبے کے بڑے شہروں
میں اس مقصدکیلئے سروئے کرانے کا کام فوری طور پر شروع کرا دیں تاکہ انہیں مسلم لیگ نون کے دور میں بنائے گئے میئروں کے کچے چٹھے کا علم ہو سکے۔ جہاں تک تجاوزات کی بات ہے خواتین کا گھروں سے نکلنا محال ہو گیا ہے ۔دکانداروں نے پبلک جگہوں پر چھابے فروشوں کو بٹھا رکھا ہے ۔عوام کی آنکھوں میں دھول جونکنے کی خاطر ایک دو ماہ بعد بلدیات کی گاڑی تجاوازت ہٹانے کیلئے آنے سے پہلے چھابے فروشوں قبل ازوقت اطلاع کر دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنا سامان سمیٹ سکیں۔اس وقت رئیل سٹیٹ کا کاروبار کرنے والوںکی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ رہائشی جگہوں کو کمرشل کرا کرمال پانی وصول کرنا ہے۔مسلم لیگ نون دور میں پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم تھا۔عام شہریوں کو اپنے رہائشی گھروں کے نقشے پاس کرا نے کیلئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے تھے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔وزیراعلیٰ کو بلدیاتی اداروں میں برسوں سے ایک ہی اسٹیشن پر نوکری کرنے والے افسران کو بدلنا ہوگا۔صوبے کے بڑے شہروں میں رہائشی جگہوں پر مسمارکرکے کمرشل بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی ساتھ ان افسران اور ملازمین کے جنکی مبینہ ملی بھگت سے رہائشی مقامات کو
کمرشل میں بدلا گیا۔اس مقصد کیلئے راست باز افسروں کی ایک جوائنٹ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے جو بڑے شہروں میں موقع پرجا کر رہائشی جگہوں کو کمرشلائز کرنے والوں کی نشاندہی کرے۔ بلدیاتی انتخابات ضرور ہو نے چاہئیں لیکن بلدیاتی نظام میں شفافیت نہیں تو رسم پوری کرنے سے کیاحاصل ۔شہباز دور میں میئرکے عہدوں پر کام کرنے والے مسلم لیگی ارکان کے اثاثوںکی جانچ پڑتال ضروری ہے تاکہ عوام جان سکیں ان کے ٹیکیسوں کے پیسوں سے بلدیاتی نمائندگان کیا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جلد نہ بھی ہو تو کوئی آفت نہیں آجائے گی پنجاب کے وزیراعلیٰ کو تمام بلدیاتی اداروں کا آڈٹ کرانا چاہیے تاکہ پبلک فنڈز میں بدعنوانی کرنے والوں کا سراغ لگا یا جا سکے۔ملک معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے الیکشن کمشنر کو عام انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے جس کا عوامی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے آئے روز مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ جہاںتک مقامی حکومتوں کے انتخابات کا تعلق ہے ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔عوامی نمائندگان کے چناو سے عام شہریوں کو اپنے اپنے نمائندوں کی وساطت سے اپنے مسائل حل کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔لوکل باڈیز کے انتخابات میں منتخب ہونے والوں نے گلیوں کی مرمت ، سٹرکوں کی صفائی ستھرائی ،سیوریج کے نظام کی درستگی کے علاوہ طلاق کے معاملات کو مصالحتی کونسلوں کے ذریعے حل کرانے کے سوا کرنا کیا ہوتا ہے۔بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی میں سول سروس کے افسران بلدیاتی اداروں کا نظام احسن طریقہ سے چلا رہے ہوتے ہیں۔سول سروس کے افسران کوئی بے قاعدگی کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے کہیں ملازمت نہ چلی جائے جب کہ عوامی نمائندوں کو ان باتوں کی پروا نہیں ہوتی۔مسلم لیگ نون کے دورمیں بلدیاتی اداروں میں کرپشن کی جو داستانیں رقم ہوئیں چوہدری پرویز الٰہی کو ان کا ضرور جائزہ لینا چاہیے تاکہ ان کے دور میں انہی بدعنوانیوں کا اعادہ نہ ہونے پائے۔وزیراعلیٰ سب سے پہلے صوبے کے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی ،فیصل آباد اور ملتان میں رہائشی جگہوں کو کمرشل کرنے والوں کا پتہ چلانا چاہیے تاکہ انہیں قانون کے مطابق قرار واقعی سزا مل سکے۔وزیراعلیٰ ان شہروں سے تجاوزات کا خاتمہ کر دیں توعوام کی اس سے بڑی کوئی خدمت نہیں ہو گی۔اس مقصد کیلئے چھابے لگانے والوں کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ جن دکانوں کے باہر چھابے لگائے جائیں ان دکانوں کے مالکان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ چھابے لگانے کی اجازت دکانداروں نے دی ہوتی ہے۔پنجاب حکومت یہ کام کر لئے تو صوبے کے عوام وزیراعلیٰ کو ہمیشہ دعائیں دیتے رہیں گے۔







