ColumnRoshan Lal

بھاکھڑاڈیم تا کالا باغ ڈیم .. روشن لعل

روشن لعل

 

پاکستان کے دریائوں میں پانی کی قلت ہو یا فراوانی، دونوں صورتوں میںاس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو نہ یہاں کبھی پا نی کی کمی اور نہ ہی سیلاب جیسی کوئی آفت برپا ہوتی۔ رواں برس اس طرح کی باتیں دومرتبہ سننے کو ملی ہیں۔ پہلی مرتبہ مارچ اور اپریل میں جب سندھ کے باسیوں کومعمول سے 45 فیصد تک کم پانی فراہم ہورہا تھا اور دوسری مرتبہ جولائی اور اگست کے دوران جب سندھ میں 500 اور بلوچستان میں400 فیصد معمول سے زیادہ بارش برسنے کی وجہ سے وہاں جل اور تھل ایک ہو گیاتھا۔ پانی کی قلت کے دنوں جب کالا باغ ڈیم کا ذکر کیا گیا تب بھی پاکستان میںمیگا ڈیم، بھاشا دیامیر اور میڈیم ڈیم مہمند زیر تعمیرتھے اورجب سیلاب کے دنوں میں کالا باغ ڈیم کو یاد کیا جارہا ہے تو اب بھی یہ دونوں ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ مہمند ڈیم کی تکمیل 2025 میں متوقع ہے جبکہ دیا میر بھاشا ڈیم کے2029 تک مکمل کیے جانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ پانی کی کمی یا فراوانی کی صورت میں کالا باغ ڈیم کو یاد کرنے والے تو کئی لوگ مل جاتے ہیں مگر یہ بات کسی سے بھی سننے کو نہیں ملتی کہ جب یہاں شروع دن سے کالا باغ ڈیم کے متبادل کے طورپر دیا میر بھاشا جیسے غیر متنازعہ ، زیادہ پانی ذخیرہ کرنے اور زیادہ بجلی پیدا کرنے والا ڈیم تعمیر کرنے کی گنجائش موجود تھی تو پھر ایک متنازعہ ڈیم کی تعمیر کے مطالبے پر کیوں وقت ضائع کیا گیا۔ حیران کن بات
ہے کہ جب عرصہ دراز تک یہاں کوئی ڈیم زیر تعمیر نہیں تھا اس وقت بھی کالا باغ ڈیم کو یاد کیا جاتا تھا اور اب جب دو بڑے ڈیم زیر تعمیر ہیں تو پھر بھی کالا باغ ڈیم کا ہی نام لیا جارہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس برس جب پانی کی قلت کے دوران کالا باغ ڈیم کو یاد کیا گیا اس وقت اگر کالا باغ یا دیامیر بھاشا ڈیم تعمیر ہوبھی چکے ہوتے تو پھر بھی پانی کی کمی ظاہر ہو نی ہی تھی کیونکہ2021 میں مون سون کے دران تو معمول کے مطابق بارش برسی مگر اس کے بعد کئی مہینوں تک معمول سے کم بارشیںہونے کی وجہ سے د ریائوں میں معمول کا بہائو رکھنا ممکن ہو ہی نہیںسکتا تھا۔ حالیہ دنوں میں کئی لوگ زیادہ بارشوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو تبا ہی برپا کرنے والا اضافی پانی اس میں ذخیرہ کر لیا جاتا، ان لوگوں کی نادانی کا جواب یہ ہے کہ بے مثال سائنسی ترقی کے باوجود بھی یہ ممکن نہیں ہوسکاکہ بلوچستان اور سندھ میں برسنے والی بارشوں کا پانی دریائے سندھ کے بہائو کو الٹا کر کے سینکڑوں فٹ بلندی پر کسی جگہ ذخیرہ کر لیا جائے۔
سطور بالا میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے کا لا باغ ڈیم کے بارے رائے زنی سمجھنے کی بجائے ان لوگوں کے متعلق اظہار خیال تصور کیا جائے جنہوں نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اپنے ذہنوں میں عجیب و غریب فکری مغالطے پال رکھے ہیں ۔کالاباغ ڈیم کے حوالے سے فکری مغالطوں کا شکار صرف عام نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو خود کو عالم فاضل سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے فہم کی پڑتال کرنے کی بجائے کالا باغ ڈیم کے سیا ق میںسندھیوں کے سیاسی و سماجی فہم کو نشانہ بناتے ہوئے ایسی بے بنیاد باتیں کہہ جاتے ہیںجنہیں کسی طرح بھی معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں مثال کے طور پر ایک ایسے صاحب کی تحریر سے اقتباس پیش کیا جارہا ہے جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ کی معروف یونیورسٹیوںسے بھی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ ان صاحب نے کالاباغ ڈیم پر بات کرتے ہوئے سندھیوں کے متعلق کچھ یوں اظہار خیال کیا ،مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں وہاں کے عام لوگوں سے کالا باغ ڈیم پر ایسے ایسے لطیفے سنے ہیں کہ ان کی سادگی پہ ترس آتا ہے۔ وہاں عام لوگوں میں دو قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ اگر کالا باغ ڈیم
بنے گا تو پنجاب ڈیم کے پانی سے ساری بجلی نکال لے گا اور مرا ہوا پانی سندھ کو دے دے گا۔ جس میں سے ساری طاقت نکل چکی ہو گی تو وہ فصلوں کو کیا فائدہ دے گا، ایک اور طبقے کی رائے ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اس سے نیچے پانی آئے گا ہی نہیں اور نتیجے میں بقیہ دریائے سندھ خشک ہو جائے گا۔جن صاحب نے سندھ میں طویل عرصہ رہنے کے باوجود سندھیوں کے متعلق یہ بات کہی انہیں اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں کہ اپنے پانی کے حق اور ڈیم سازی کے حوالے سے سندھیوں کا فہم کیا ہے اور وہ اس معاملے میں کس قدر حساس ہیں۔ ان صاحب کے برعکس راقم پنجابی ہونے کے باوجود آبی معاملات میں دلچسپی رکھنے کے سبب اس بات سے بخوبی آگاہ ہے سندھی پانی کے حق کے لیے کیوں حساس ہیں۔ کالا باغ ڈیم تو آج کی بات ہے سندھیوں نے تو پاکستان بننے سے بھی پہلے دریائے ستلج پر ہماچل پردیش میں بھاکھڑا ڈیم بننے کی مخالفت کی تھی۔ سندھیوں کی طرف سے بھاکھڑا ڈیم کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ دریائے ستلج پر ستلج ویلی کینال پراجیکٹ کے تحت مختلف بیراج بنانے اور ان سے نہریں نکالنے کی وجہ سے دریائے سندھ میں ستلج سے جانے والے پانی میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی ۔ اپنے علاقے میں دریائے ستلج سے آنے والے پانی میں کمی پر سندھیوں نے اس وقت نہ صرف احتجاج کیا بلکہ ایک درخواست کے ذریعے انگریز وائسرائے ہند تک بھی اپنے تحفظات بھی پہنچائے ۔ سندھیوں کی مذکورہ درخواست کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ اس وقت تک بھاکھڑا ڈیم کی تیاری پر مزید کام معطل کر دیا گیا تھا جب تک سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم کا کوئی فارمولا طے نہیں ہو جاتا ۔ اس درخواست کے تسلسل میں سندھ پنجاب ڈرافٹ ایگریمنٹ طے ہوا تھا۔ افسوس کہ دریائوں میں پانی کی روانی سے متعلق سندھیوں کا احساس اور فہم قیام پاکستان کے وقت ان لوگوں میںنہ دیکھا جاسکا جو تقسیم ہند کے وقت اس ملک کے معاملات طے کر رہے تھے۔ تقسیم ہند سے قبل سندھ ، بھاکھڑا ڈیم کی مخالفت اور پنجاب حمایت کیا کرتا تھا لیکن تقسیم کے بعد پاکستان کا موقف یہ تھا کہ بھاکھڑا ڈیم تعمیر نہیں ہونا چاہیے۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ پانی کی تقسیم کے معاملات کا تجربہ رکھنے والے کسی سندھی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے کرتے وقت مذاکراتی ٹیموں کا حصہ نہ بنایا گیا۔ پاکستانی حکام نے بھاکھڑا ڈیم بنانے کی مخالفت تو کی مگر اس مخالفت کے باوجود بھی یہاں سندھیوں کے اس فہم اور احساس کا ادراک نہ ہو سکا جس کی بنا پر انہوں نے تقسیم ہند سے قبل بھاکھڑا ڈیم کی مخالفت کی تھی۔ موجودہ سیلاب کے دنوں میں سندھیوں کے فہم کا مذاق اڑانے والوں کو پاکستان بننے کے 75 برس بعد بھی یہ احساس نہیں ہو سکا کہ سندھیوں نے بھاکھڑا ڈیم کی مخالفت کیوں کی تھی اور کالا باغ ڈیم پروہ کن وجوہات کی بنا پر تحفظات کا اظہار کر تے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button