ColumnNasir Naqvi

قرض بنا مجبوری! .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ قرض کوئی بھی خوشی سے نہیں لیتا۔ نہ ہی کوئی خوشی سے دیتا ہے۔ اس لیے کہ ہر کوئی یہ دیکھتا ہے کہ کہیں رقم ڈوب تو نہیں جائے گی اسی لیے قرض دینے سے پہلے ضمانتی دیکھے جاتے ہیں۔ شرائط طے پاتی ہیں۔ عام آدمی سے لے کر ریاست کی سطح تک ایک ہی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے البتہ سود خوروں کا یہ مسئلہ نہیں، مقامی لوگ ضرورت مند سے حقیقی رقم سے کئی گنا زیادہ کا پرنوٹ تحریر کرا کے طاقت کے زو ر پر غریب کا استحصال کرتے ہیں پھر بھی کاروباری شخصیات زیادہ تر قرضے کو ہی ترجیح دیتے ہیں وہ دو دونی چار کی منصوبہ بندی کر کے گاڑیاں بھی لیتے ہیں اور تجارت بھی کرتے ہیں۔ ان کی ’’جمع تفریق‘‘ عام لوگوں سے بہتر ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی دولت کو ہوا نہیں لگنے دیتے۔ غربت کے مارے لوگوں کی طرح غریب ممالک کی صورت حال بھی ایسی ہی ہوتی ہے ہمیں تو سمجھ آ گئی کہ آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام بحال کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں سے کتنی ناک کی لکیریں نکلوائی ہیں لیکن حکمران ابھی بھی کچھ سمجھنے کو تیار نہیں، کیسی دلچسپ صورت حال ہے کہ قرضے حکمران لیتے ہیں اور بھگتتے ہیں عوام، خان اعظم عمران خان کا اقتدار سے پہلے دعویٰ تھا کہ انہیں عالمی اداروں کی چالوں سے واقفیت ہے۔ دنیا دیکھی ہے ، یہ کہ آئی ایم ایف کے جال میں پھنسنے سے بہتر ہے کہ خودکشی کر لے،پھر سب نے دیکھا کہ حالات بدلے اقتدار میں آنے والا خودکشی کرنے آئی ایم ایف کے پاس بھی پہنچ گیا۔ شور بھی مچایا ، واویلا بھی کیا اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتے ہوئے سابق حکمرانوں کو بْرا بھلا بھی کہا، بات یہاں ختم نہیں ہوئی، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ 71سالوں میں سب سے زیادہ قرضہ کپتان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں لے لیا پھر بھی آئی ایم ایف کے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اور معاملہ ایسا چوپٹ ہوا کہ موجودہ حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے لیکن اس معاہدے کاموجودہ حکومت پر ڈال دیا گیا۔ لوگ یہ بات اس لیے تسلیم نہیں کر رہے تھے کہ اس دور میں پہلے سے بھی زیادہ مہنگائی ہو گئی، حکمرانوں نے شوروغوغا کیا کہ یہ کارنامہ کپتان کی معاہدہ خلافی کی وجہ سے ہوا لیکن پھر بھی اس نادانی کو پوری قوم کو بھگتنا پڑا اس لیے کہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف معاہدے کی روشنی میں سخت فیصلے کئے۔ بجلی اور گیس، پٹرول مہنگا ہوا تو پریشانیاں بڑھ گئیں ۔ اب 250ارب کا معاہدہ آئی ایم ایف نے فائنل کر لیا لیکن اعلان سے پہلے عمران حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے پنجاب اور خیبر پختونخواکے وزرائے خزانہ کو ایک ایسا خط لکھنے کی ہدایات دے دیں جس میں سیلاب کے بہانے صوبے وفاق کو معاہدے کے مطابق رقم دینے سے انکار کر دیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ حکمنامے کی آڈیو لیک ہو گئی اور اپنے پرائے سب جان گئے کہ سازش کہاں اور کون کر رہا ہے، محسن لغاری نے سٹیٹ کے خلاف اس تحریر پر شوکت ترین سے وضاحت بھی مانگی لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمارے چیئرمین کے خلاف جو کچھ کر رہی ہے ان سالوں کو مزہ چکھانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

میرے ذرائع کے مطابق شہباز گل کی رہائی سے پہلے شوکت ترین پر بھی بغاوت، مملکت کو نقصان پہنچانے اور اکسانے کا مقدمہ ہو سکتا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ چھ ارب ڈالر قرض کی یہ سہولت 2019ء میں عمرانی دور میں دی گئی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات کا ادراک ہی نہیں کر سکے کہ معیشت کو کس طرح
سنبھالنا ہے۔ حکومتی آغاز پر اسد عمر کو عقل کل ظاہر کر کے متعارف کرایا گیا۔ دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کا دماغ ہیں لیکن ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی اداروں کے دبائو میں اسد عمر کی چھٹی ہو گئی اور عبدالحفیظ شیخ کو مددگار سمجھ کر درآمد کیا گیانتیجتاً اسد عمر کا ہوم ورک اور حکمت عملی ختم ہو گئی اور نیا معاہدہ شیخ صاحب نے پہلے سے بھی مشکل شرائط پر کر لیا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کا اچھا یا بْرامعاہدہ عظیم ماہر اقتصادیات سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا ہے یہ تو قوم کی خوش قسمتی کہ سیاسی جوڑ توڑ میں وہ یوسف رضا گیلانی سے سینیٹ کا الیکشن ہار گئے اور انہیں اپنی پرانی ملازمت پر واپس جانا پڑا ،ورنہ ان کے مزید کارنامے بھی ہمارے ذمے لگ جاتے، عمرانی حکومت کی نادانی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے عالمی ادارے نے ہم سے گِن گِن کر نہ صرف بدلے لیے بلکہ تاخیری حربوں سے معاشی بدحالی میں ہمارا امتحان در امتحان لیا۔ بات یہ سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی عالمی ادارے یا ملک سے معاہدے شخصیات کے حوالے سے کبھی نہیں ہوتے بلکہ شخصیات کی غلطی ہمیشہ مملکت اور اس کے عوام کو بھگتنی پڑتی ہے، بس ایسا ہی پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہوا۔
بدترین معاشی بحران اور پوری دنیا کی معاشی بدحالی میں بھلا پاکستان جیسا ترقی پذیر اور غریب ملک کیسے محفوظ رہ سکتا تھا، کہنے کو اس وقت ملک میں مشترکہ اتحادی حکومت ہے لیکن اقتدار سے اترے عمران خان اور انکے حواری اس قدر غصّے میں ہیں کہ ان کی زبان اور کلام سے نہ ادارے بچ سکےاور نہ ہی شخصیات۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کے مارے پاکستانیوں کا وقتی سہارا آئی ایم ایف کی موجودہ قسط کے سوا کچھ نہیں تھا، اس وقت ملک و قوم کے لیے ’’قرض بنا مجبوری‘‘ اسی لیے اس کے ملنے کی امید پر حکمران خوش ہیں کیونکہ انہوں نے شہباز شریف کی قیادت میں رکاوٹوں کی یہ
دوڑ ایک حد تک جیت لی ہے۔ دنیا کی طرح ہمارے معاشی بحران میں بھی چھپے دشمن کرونا کی کارستانی شامل ہے پھر بھی حالات کی ذمہ داری ایک سے زیادہ ماہرین اقتصادیات عمرانی حکومت پر ڈالتے ہیں جبکہ عمران خان اور ان کے ساتھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں، حالانکہ کارکردگی اور منصوبہ بندی کے حوالے سے میں اور آپ ہمیشہ ان نادان دوستوں کی نشاندہی کرتے رہے اور ہم سب کا اندازہ تھا کہ عمرانی حکومت کے خاتمے کے لیے ان کے نادان دوست ہی کافی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد بھی پہلے ہی روز سے ان کی حکومت کی نااہلی پر احتجاج کر رہے ان کی ساری تحریک مہنگائی، بے روزگاری اور وعدوں کی خلاف ورزی پر چلائی گئی اس لیے عام تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ حکومتی تبدیلی کے بعد عوام کو ریلیف ضرور ملے گے لیکن حقیقت حال کسی کو پتہ نہیں تھی کہ جب عمران خان حکومت کو خطرے کی گھنٹی بجتی نظر آئی تو ا س نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود پٹرول کی قیمتوں میں کمی کر کے معاشی میدان میں ایسی باروری سرنگیں بچھا دیں جن کے اثرات سے ابھی تک نکلا نہیں جا سکا، ایسے میں قرض حالات اور وقت کی مجبوری بن گیا، مفتاح اسماعیل ایک سے زیادہ مرتبہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ جلد عالمی ادارے سے قسط ریلیز ہو جائے گی اور اس سے ہمیں عوامی آنسو پونچھنے کا موقع مل جائے گا لیکن معاشی بحران اور سیلابی تباہ کاریوں کے بعد سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا یہ فنڈز جس کام کے لیے دئیے جا رہے ہیں اسی پر خرچ کیے جائیں گے کہ حکومتی عیاشیوں کی نذر ہو جائیں گے جبکہ سنگین حالات میں بھی عالمی سطح کی امداد متاثرین سیلاب کی بحالی کے لیے بھی آ رہی ہے۔ اب شہباز حکومت اور اتحادیوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کا استعمال شفافیت سے کیا جائے تاکہ متاثرین جلد از جلد اپنی سابقہ حالات میں بحال ہو سکیں۔ حکومتی ذمہ داری بڑھ گئی اگر کسی بھی سطح پر کوتاہی ہوئی تو بات کا بتنگڑ اس لیے بنایا جائے گا کہ مخالفین کا سوشل میڈیا وار کا تجربہ حکومت اور مسلم لیگ نون کے پاس نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آئندہ سال الیکشن کا سال بھی ہے۔ کرپشن کے الزام بھی بڑی دیدہ دلیری سے لگائے جائیں گے اور سکینڈلز بھی سامنے آ جائیں گے۔
دنیا بھر کے غریب اور کم ترقی یافتہ حکومتوں کے لیے عالمی اداروں کے قرض ایک حقیقی مجبوری ہیں۔ ترقی و خوشحالی تو ادھار کی رقم سے کبھی نہیں ہوئی لیکن ایسی مثالیں ایک سے زیادہ ہیں کہ باصلاحیت قوموں نے مثبت حکمت عملی سے ایسے منصوبے بنائے کہ انہیں کامیابی کے راستے ڈھونڈنے میں پریشانی کم ہو گئی۔ ہماری بھی ارباب اختیار اور سرکاری ذمہ داران سے یہی التجا ہے کہ ’’جو ہے جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر معاملات کی بہتری کے لیے بھرپور کوشش کی جائے۔ آئی ایم ایف کی قرض میں ملنی والی رقم ہو کہ سیلاب کی امداد، اسے شاح خرچیوں اور فضول خرچیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ قرض لے کر اترانے کی ہرگز ضرورت نہیں، اس کا استعمال قومی فریضے اور ضرورت کے مطابق کیا جائے۔ معاشی بحران، مہنگائی، بے روزگاری کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی بڑا امتحان ہے، ’’قرض بنا مجبوری‘‘ لیکن اگر اس کا استعمال صاف و شفاف انداز میں نہ کیا جا سکا تو یہ اتحادی حکومت کے گلے کی ہڈی بھی ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ عمران خان جس انداز میں للکار رہے ہیں’’نہیں چھوڑوں گا، نہ آرام سے بیٹھوں گا نہ کسی کو بیٹھنے دوں گا‘‘ یہ دعویٰ کسی چیلنج سے کم نہیں، شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کو مثبت پالیسی سے یہ یاددہانی کرانی ہو گی کہ خواہ حالات کچھ بھی ہیں انہوں نے ایک ناکام، نااہل حکومت کے خاتمے کیلئے سیاست نہیں، ریاست بچانے کا فیصلہ کیا تھا لہٰذا اس کے لیے عملی ثبوت بھی فراہم کرنے پڑیں گے کہ قرض محض شوقیہ نہیں لیے گئے’’قرض بنا مجبوری‘‘ تو ہم نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشی بحران اور مہنگائی پر قابو پا کر عوامی ریلیف دیا، اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر جگ ہنسائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔

جواب دیں

Back to top button