شوکت ترین ہوئے متنازعہ ترین .. روشن لعل

روشن لعل
ہو سکتاہے کئی لوگوں نے شمال اور جنوب کی طرح متضاد حکومتوں کے وزیر خزانہ رہ چکے شوکت ترین کے لیے استعمال کیے گئے متنازعہ ترین جیسے لفظ کو ز یادہ مناسب نہ سمجھا ہو۔ جن لوگوں کو سابق وزیر خزانہ کے لیے متنازعہ ترین لفظ غیر مناسب محسوس ہوا ضروری نہیں کہ وہ شوکت ترین کے خیر خواہ ہی ہوں، ان لوگوں میں کئی ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو سابق وزیر خزانہ کے لیے متنازعہ ترین سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے جانے کے خواہاں ہوں۔ یہاں شوکت ترین کی لیک ہونے والی ان ٹیلی فون کالز کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں جن کی وجہ سے انہیں متنازعہ ترین کہاجارہاہے۔ جس ٹیلیفونک گفتگو میں شوکت ترین نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کو ایسا انتہائی قدم اٹھانے کو کہا جسے جواز بنا کر کر آئی ایم ایف دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے پاکستان کوقرض دینے سے انکارکر سکتا تھا وہ گفتگو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔جو لوگ شوکت ترین کی طرف سے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو دیئے گئے مشوروں کو وطن دشمنی سمجھتے ہیں وہ ان پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ جس بندے کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے پر زور دیا جارہا ہو اس کے لیے لوگوں کو کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ اسے صرف متنازعہ ترین کہنے پر اکتفا کیا جائے۔ جن لوگوں کو شوکت ترین کی باتوں سے شدید دھچکا لگا وہ چاہے ان کے متعلق کچھ بھی سوچیںمگر اپنی حالت یہ ہے کہ ملک کے سابق وزیر خزانہ کو متنازعہ
ترین بھی انتہائی دکھی دل سے کہا جارہاہے۔ شوکت ترین کو متنازعہ ترین کہتے ہوئے دل اس وجہ سے دکھی ہے کیونکہ ایک دور ایسا بھی گزرا جب راقم نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے اجرا کے لیے ادا کیے گئے ان کے کردار پر انہیں اپنی تحریروں میں ا خراج تحسین پیش کیا تھا۔ شوکت ترین کو خراج تحسین پیش کرنے کا مقصد اس این ایف سی ایوارڈ کی تیاری اور متفقہ منظوری کے لیے کی گئی ان کوششوں کو سراہنا تھا جن کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی کسی حد تک کم ہوا تھا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی منظوری کے موقع پر شوکت ترین نے ایوارڈ کے خدوخال کی تعریف کرتے ہوئے اسے وفاق کی مضبوطی کے لیے اٹھایا گیا اہم قدم قرار دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی جس حکومت کاوزیر خزانہ بن کر شوکت ترین نے ساتویں این ایف سی ایورڈ کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا، بعدازاں نہ صرف اس حکومت چھوڑا بلکہ اس کے ٹکٹ پر جیتی ہوئی سینیٹر کی سیٹ سے بھی
استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے مخالفین کے اس طرح کے بیانات سامنے آئے تھے کہ شوکت ترین نے حکومت کی بدعنوانیوں کے خلاف احتجاجاً وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا ۔ شوکت ترین نے مذکورہ بیانات کی تردید کرتے ہوئے اس رد عمل کا اظہار کیا تھا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کے پراپیگنڈے کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اورصرف اس لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا کیونکہ وہ اپنا ایک بینک شروع کرنے جارہے ہیں جس کے کاموں پر وہ وزیر خزانہ رہتے ہوئے اپنی پوری توجہ مرکوز نہیں کر سکتے تھے۔ شوکت ترین کے اس بیان کے بعد ان کے متعلق ذہن میں یہ تصور اُبھر اتھا کہ وہ ایک وضع دار انسان ہیں۔
شوکت ترین نے جب بہترین ملکی مفاد میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے کام کیا اور جب ایک سیاسی جماعت اور اس کی حکومت چھوڑنے کے بعد بھی لوگوں کے اُکسانے کے باوجود اس کے خلاف زہر اُگلنے سے انکار کیا تو انہیں وضع دار اور بااصول تصور کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ جس طرح ماضی میں شوکت ترین کا مثبت کردار اُبھر کر سامنے آیا اسی طرح آج اُن کا منفی کردار بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ۔اگر کسی کے مثبت کردار پر اس کی تعریف واجب ہے تو منفی کردار پر مذمت بھی
نا قابل جواز نہیں ہے۔شوکت ترین نے جو کچھ کہا اسے اس زاویے سے دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ کون سیاسی بنیادوں پر ان کی حمایت یا مخالفت کر رہا ہے۔ شوکت ترین کی باتوں کو صرف یہ مد نظر رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے غیر جانب دارمعاشی ماہرین ان کے متعلق کیا کہہ رہے ہیں۔جب اکبر زیدی جیسے ماہر معاشیات کی یہ رائے ہوکہ شوکت ترین نے دو صوبوں کے وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ ہر طرح سے ملکی مفاد کے برعکس تھاتو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو مرتبہ ملک کے وفاقی وزیر خزانہ کے اہم عہدے پر فائز رہ چکے شخص کو کیسے بدستور ریاست کا خیر خواہ سمجھا جائے۔شوکت ترین نے ملک کے دو اہم صوبوں کے وزرائے خزانہ کو جو کچھ کرنے کو کہا اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کی وہ قسط جاری کرنے سے انکار کر دے جس کے حصول کی حکومت کو یقین کی حد تک امید ہو چکی تھی۔ اگر شوکت ترین کی کوشش کامیاب ہو جاتی اور آئی ایم ایف قرض کی قسط جاری نہ کرتا تویہ طے تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تر ہو جاتا ۔ جس شخص کے کسی عمل کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کا امکان پیدا ہو جائے اسے کیسے ملک کا خیر خواہ تصور کیا جاسکتا ہے۔شوکت ترین کی ملک کے لیے خیر خواہی مشکوک ہونے کے بعد بھی یہ مناسب نہیں کہ انہیں غدار تصور کرنا شروع کر دیا جائے۔ شوکت ترین پر غداری کے مقدمے کا مطالبہ ناقابل ستائش ہے۔ اس طرح کے مطالبے کو درخور اعتنا سمجھے بغیر اس بات پر ضرور غور ہونا چاہیے کہ ملک کا وزیر خزانہ بنتے وقت انہوں نے جو حلف لیا تھا کیا اس کی پاسداری عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی ان پر واجب تھی۔ جب عہدہ نہ رہنے کے بعد بھی حلف کی پاسداری واجب ہوتی ہے تو یہ بات بلاشک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ شوکت ترین اپنے حلف کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے۔ شوکت ترین کے خلاف چاہے دوسری کوئی کارروائی ہو یا نہ ہو مگر ان کا آئندہ وزیر خزانہ جیسے عہدے کے لیے اہل بنے رہنا اس ملک کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔
شوکت ترین نے کل جس این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل اور منظوری کے لیے نمایاں کردار ادا کیا وہ ایوارڈ اس سوچ کا عکاس تھا کہ وفاق کی تمام اکائیوں کے حقوق و فرائض کا تعین صرف لوگوں کی تعداد نہیں بلکہ پسماندگی، رقبہ اور وسائل کی بنیاد پر بھی ہونا چاہیے۔ آج شوکت ترین تحریک انصاف کے صوبائی وزرائے خزانہ کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ باقی صوبوں کے عوام اور وفاق جائے بھاڑ میں مگر ان کی زیر حکومت صوبوں کو وفاق سے اپنے حقوق تو مکمل طور پر حاصل کرنے چاہئیں مگر وفاق پاکستان کے مفاد میں کوئی واجب فرض ادا کرنے سے صاف انکار کر دینا چاہیے۔ اگر شوکت ترین کے رویے ور کردار میں چند برسوں کے دوران یو ٹرن جیسی تبدیلی نظر آنے لگی ہے تو پھر انہیں متنازعہ ترین بھی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔







