تنگ آمدبجنگ آمد ۔۔ علی حسن

علی حسن
تنگ آمدبجنگ آمد
مشکلوں کے سامنے پر لوگوں کو زبان مل گئی ہے اور خوف زدہ رہنے والے خاموش لوگ پھٹ پڑے ہیں۔ ہر مشکل برداشت کی۔ کوئی بھی سہولت نہ ملنے پراُف بھی نہیں کیا۔ کہیں بھی لوگوں نے کسی کے سامنے احتجاج نہیں کیا لیکن بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے لوگوں کو زبان دے دی ہے۔ روٹی کے لیے پھیلے ہوئے ہاتھ جب خالی ہی رہ گئے تو لوگ کیا کرتے۔ آٹھ بچوں کی ماں کو کسی نے دو روٹی دی۔ اس نے اس کے آٹھ ٹکرے کئے لیکن ماں اور بچوں کی بھوک تو وہیں کی وہیں ہی رہی۔ بچے تو بلکتے ہی رہے۔ چاروں طرف پانی میں گھری ماں کیا کرے ۔ کہاں سے روٹی لائے کہ بچوں کے پیٹ کی آگ مٹائے۔ بعض لوگ پائو پائو بھرپکے ہوئے چاول کی تھیلی دے کر چلے جاتے ہیں لیکن ساتھ میں پانی نہیں ہوتا ۔ پانی میں گھرے لوگ پینے کے لیے پانی کہاں سے لائیں ۔
لوگ تھک گئے تو انہوں نے چینلوں کی زبان میں جو سامنے آیا اسے ’’دھو‘‘ دیا۔دھن دیا، جھاڑ پونچھ کردی ۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ تک کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ وزیر اعلیٰ ہفتہ کو میر خاص پہنچے جہاں متاثرین نے احتجاج کیا۔ متاثرین کچھ بھی نہیں مانگ رہے وہ تو صرف یہ شکایت کر رہے ہیں کہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ متاثرین اذیت ناک صورتحال سے دوچارہیں اور اب تک انہیں کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی ۔وزیر اعظم جمعہ کو سکھر پہنچے ۔ ضلعی حکام، بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کی موجودگی میں اپنی کارکردگی کی بریفنگ دے رہے تھے۔ متاثرین کو مقام کو علم ہوا تو وہ بھی پہنچ گئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔ نعرے بازی سے بلاول اور مراد شاہ خاصے بر ہم ہوئے کیوں کہ ان کی وزیر اعظم کی موجودگی میں سبکی ہوئی اور وہ چاہتے تھے کہ متاثرہ لوگ خاموش ہی رہیں۔ وزیر اعظم کے روانگی کے بعد سکھر پولیس نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ایک سو نامعلوم افراد کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں ایف آئی آر کاٹ دی۔ نامعلوم ملزمان؟۔ نامعلوم اس لیے لکھا گیا کہ جسے چاہیں گے اس میں دھر لیں گے۔ گھر بار سے محروم ہوجانے والے، روٹی کے متلاشی لوگ واقعی دھر لیے جانے کے قابل ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ وہ شاہی خاندانوں کے لوگوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ حکمرانوںاور عوامی نمائندوں کو یہ احتجاج بھی منظور نہیں، برداشت نہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بعض وزراء کے ہمراہ ہفتہ کی رات میرپورخاص پہنچے اور کمشنر آفس میں ڈویژنل ،ضلعی انتظامیہ اور علاقے
کے حکومتی ایم این ایز اور ایم پی ایز سے تفصیلی بریفنگ لی۔ جی ہاں و ہی میر پور خاص جہاں آصف علی زرداری کے بہنوئی میر منور تالپور نے متاثرین میں پچاس پچاس روپے کی امداد تقسیم کی تھی۔ میر منور اور ان کی زوجہ فریال تالپور بلا شبہ اربوں پتی ہوں گے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں سندھ حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔انہوں نے وزراء ،منتخب نمائندوں اور افسران سے کہا کہ وہ متاثرین سے مسلسل رابطے میں رہیں اور انہیں ہرممکن سہولت فراہم کی جائے۔
خیر پور کے منظور وسان کو پولیس اور ان کے گارڈوں نے لوگوں سے بچایا اور بھگایا۔منظور وسان آج کل وزیر اعلیٰ کے مشیر زراعت ہیںوہ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ صوبائی وزیر ناصر شاہ کو بچانے کے لیے ایس ایس پی سعد ان کے سامنے آگئے تو لوگوں نے ایس ایس پی کو دھکے دیئے۔ ناصر شاہ موقع سے جان بچا کر فرار ہو گئے۔ متاثرین نے پیر کے روز ہی ناصر شاہ کے گھر کے باہر بھی مظاہرہ کیا اور نعرے لگائے کہ ہماری آواز سنو۔ وفاقی وزیر خورشید شاہ کے بیٹے زیرک شاہ کو مشتعل افراد نے گاڑی سے اترنے پر مجبور کیا۔ انہیں کیچڑ اور پانی میں چلایا اور پوچھا کہ انہیں مزا آیا یا نہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر عامر مگسی کو لوگوں نے گھیر کرکہا کہ ہمارے بچے جس طرح سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں تمہارے بچوں کو بھی بیٹھنا ہوگا۔ عامر مگسی اور ان کے بھائی نادر مگسی کے حلقہ شہداد پور کمبر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مشتعل ڈنڈے بردار لوگوں نے دادو کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر کی لینڈ کروزر کو ڈنڈے مار مار کر شدید نقصان پہنچایا۔ دادو ضلع کے کئی شہر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور انتظامیہ نکاسی کرانے میں ناکام رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی رکن ، پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات نفیسہ شاہ کو لوگوں نے خیر پور راستہ میں روک لیا اور ان کے سامنے احتجاج کیا۔ نفیسہ شاہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی ہیں اور خیر پور کی ضلع ناظمہ بھی رہ چکی ہیں۔ پورے خیر پور شہر میں کئی روز تک پانی کھڑا
تھا۔ ضلع میر پور خاص کی تحصیل جھڈو میں مشتعل عوام کے ان کے دفتر پر دھاوے کے بعد وہ دفتر سے فرار ہو گئے۔ جھڈو شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ میر خاص سے تھر پارکر تک پوری سڑک کے دونوں کناروں پر موجود تمام چھوٹے بڑے شہر ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہاں بہنے والے ایل بی او ڈی سیم نالہ کئی مقامات سے ٹوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے پانی شہروں میں داخل ہو گیا ہے۔ جھڈو میں احتجاج کرتے ہوئے لوگوں کا کہنا تھا کہ حکومت کو لوگوں کے لیے سہولت پیدا کرنا ہوگی ورنہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حالات سری لنکا سے بد تر ہو رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ پانی میں گھر جانے یا پانی کی وجہ سے بے گھر ہوجانے کی وجہ سے لوگ حالات سے مایوس ہو نے کے علاوہ حکومت اور اپنے سیاسی رہنمائوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔ یہ سارے وہ سیاسی داں ہیں جن کے سامنے لوگ نظریں نہیں اٹھاتے تھے۔ حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد کے ایک علاقہ میں جہاں کئی روز سے پانی کی نکاسی نہیں ہو سکی ،لوگوں نے احتجاج میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے بینر اور جھنڈے اتار دیئے اور دھمکی دی ہے کہ کوئی ووٹ مانگنے کے لیے آکر تو دیکھے۔ سیاست دانوں، سیاسی رہنمائوں کو لوگوں کا یہ احتجاج تو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ حالات نے لوگوں کو مرنے مارنے اور آمادہ جنگ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ کئی شہروں میں حکومت کی جا نب سے پہنچائے گئے۔
امدادی سامان بااثر لوگ اور اراکین اسمبلی اپنی تحویل میں رکھ رہے ہیں تا کہ اپنی نگرانی میں تقسیم کرائیں۔ ضرورت مند لوگوں نے کئی شہروں میں ان گوداموں اور مقامات پر دھاوا بول کر سامان اٹھا لیا ہے جہاں وہ رکھا گیا تھا۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ امدادی سامان سیاسی لوگوں کی ٹھویل میں رکھا گیا ہو۔ ڈپٹی کمشنر امدادی کاموں اور سامان کے ذمہ دار ہوا کرتے ہیں لیکن اب تو ڈپٹی کمشنر اور ان کا ماتحت عملہ بھی منتخب نمائندوں اور پیپلز پارٹی کے با اثر رہنمائوں کے ہاتھوں یر غمال ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔ انہیں ہر کام کی اجازت ان لوگوں سے لینا پڑتی ہے۔ اسی طرح پولیس میں تھانوں کی سطح تک تھانوں کے سربراہوں کے علاوہ ماتحت عملہ کی تقرری بھی اراکین اسملی یا غیر منتخب سیاسی رہنمائوں کی اجازت سے ہوتی ہے۔ اپنی نوعیت کی عجیب سیاست ہے جس سے خود پیپلز پارٹی کو بھی مستقبل میں فائدہ پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔







