کالا باغ ڈیم وقت کی ضرورت ہے ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
آخر ہم کب تک دوسروں کے دست نگر رہیں گے۔جب کوئی آفت آتی ہے ہمیں دو سروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے کیا ہی اچھا ہو ہم قدرتی آفات سے نپٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے کی طرف توجہ دیں تو کوئی وجہ نہیں ہم سیلابی پانی کو روک نہ سکیں۔سیاست دان ملکی ترقی کے معاملے میں یکجا ہوتے تو آج ہمیں جس صورت حال کا سامنا ہے وہ نہ ہوتی۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہونے لگا تو خیبر پختونخوا کی ایک جماعت نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ، چارسدہ ،پبی اور چارسدہ زیر آب آجائیں گے۔ کوئی ان سے پوچھے اب یہ علاقے سیلابی پانی سے متاثرہ نہیں ہوئے ؟ ڈیم بن جاتا تو یہ علاقے سیلابوں سے محفوظ رہ سکتے تھے۔آج تک جتنے بھی ڈیم بنے ہیں وہ فوجی حکومت کے دور میں بنائے گئے ہیں سیاست دانوں نے کون سا معرکہ سر کیا ہے،سوائے کرپشن کرکے بیرون ملک جائیدادیں بنانےکے کیابھی کیاہے؟اس کے مقابلے میں بھارت نے کئی سو ڈیم بنا لیے ہیں۔
حالیہ سیلابوں سے ملک کا کوئی کونہ ایسا نہیں جو سیلابی پانی سے متاثر نہ ہوا ہو۔اس بار سیلابوں سے جو تباہی ہوئی، متاثرہ افراد کی بحالی کو کئی سال لگیں گے۔ سیلابی پانی سے لوگ زندگی کی بازی ہا رگئے ہیں۔جب کوئی قدرتی آفت آتی ہے توافواج پاکستان کے لوگ دن رات ایک کرکے متاثرہ لوگوں کی بحالی کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ہمیں یاد ہے جب منگلا ڈیم کی تعمیر ہوئی توایوب خان نے وہاں کے متاثرین کو برطانیہ میں آباد کیا جو عشروں سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی پر اربوں روپے خرچ ہو نے کے باوجود ہم ڈیم کی تعمیر شروع نہ کر سکے۔ حالیہ سیلابوں نے ایک بار پھر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی یاد دلا دی ہے کیونکہ ڈیم بن جاتاتوملک میں بجلی کی کمی کا بڑا مسئلہ بھی حل ہو جاتا۔ سندھ میں زراعت کے لیے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہوتا۔آج جو ہمیں خیبر پختونخوا شہروں میں سیلابوں کا سامنا ہے وہ بھی نہ ہوتا۔ بارشوں کے پانی کی اطلاع تو قبل از وقت ہو جاتی ہے، اگر ڈیم بن جاتا تو خیبر پختونخوا اور سندھ کے علاقے زیر آب نہ آتے۔دوسری بڑی آفت زلزلوں کی ہوتی ہے جس کے بارے میں قبل ازوقت کوئی نہیں جان سکتاکہ زلزلہ کس وقت آئے گا،لہٰذا بارشوں کے پانی سے آنے والے سیلابوں سے ممکنہ حد تک نپٹا جا سکتا ہے وہ بھی اسی صورت میں جب ڈیم موجود ہوں۔کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والوں نے عوام کا نقصان نہیں کیا بلکہ ملک دشمنی کو پروان چڑھایا ہے جو دشمن ملک بھارت کی سازش کا شکار ہو گیا۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے آغاز سے پہلے برطانیہ سے آنے والی ماہرین کی ٹیم نے خیبر پختونخوا کے علاقوں نوشہرہ، چارسدہ اور دوسرے شہروں میں مکانات پر نشانات لگانے شروع کئے جس کا مقصد Satellite imaging تھا لیکن سیاست دانوں نے شوروغوغا کیا کہ جہاں نشانات لگائے جا رہے ہیں،ڈیم کا پانی وہاں تک آجائے گا اور سارے مکانات پانی میں ڈوب جائیں گے حالانکہ ڈیم کے پانی کی سطح 915 فٹ بلند ہونا تھی جب کہ نوشہرہ، صوابی، چارسدہ اور پبی اس سے کئی زیادہ بلندی پر واقع ہیں۔ڈیم کی تعمیر میں سندھ والوں کی رکاوٹ یہ تھی کہ سندھ کا علاقہ صحرا بن جائے گا حالانکہ ڈیم کی تعمیر سے کوٹری بیراج سے جو فالتو پانی سمندر میں جاتا ہے اس سے زراعت کا کام لیا جا سکتا تھا۔کالا باغ قدرتی طور پر ایسا علاقہ ہے جو تینوں طراف سے پہاڑوں میں گھیرا ہے۔ڈیم کی تعمیر سے کئی لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی تھی جس سے عوام کو بہت سستے داموں بجلی کی فراہمی آسانی سے ہو سکتی تھی۔ ڈیم کی تعمیر سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مل سکتا تھااورپندرہ ارب ڈالر کی زرعی پیدا وار ہو سکتی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے دورمیں ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہونا تھا کہ ڈیم کی تعمیر وطن دشمنوں کے
پراپیگنڈے کی نذرہو گئی۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت ڈیم کی تعمیر کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہے تو یہ کام مشکل نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ڈیم کی تعمیر کے لیے قومی کانفرنس کا انعقاد کرکے ڈیم مخالف جماعتوں کو ڈیم کی تعمیر کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہوسکے۔ملک پہلے ہی معاشی طور پر بہت کمزور تھا کہ سیلابوں نے تباہی مچا دی۔یہ اچھی بات ہے کہ مخیر حضرات مشکل کی اس گھڑی میں حکومت سے مالی تعاون کر رہے ہیں یا جو دوسرے ملکوں سے کچھ نہ کچھ امداد ملے گی۔ متاثرہ افراد کی بحالی اتنا آسان کام نہیں ۔حکومت کو زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ بجلی کی پیداوار کے ساتھ زراعت کے لیے پانی دستیاب ہو سکے۔ بلوچستان میں تو سیلابی پانی کو روکنے کے لیے چیک اور مائیکرو ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے اگر چیک ڈیم اور مائیکرو ڈیم ہوتے تو شاید اتنی تباہی نہ ہوتی۔ہم سیاست دانوں سے کہیں گے وہ اپنے سیاسی اختلافات ترک کرکے سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔عمران خان ٹیلی تھون کر رہے ہیں ۔اچھی بات ہے عوام کا بھی مشکل کی گھڑی میں زیادہ سے زیادہ مالی تعاون کرنا چاہیے ۔مخیر حضرات اور دوسرے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سیلابی فنڈ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ متاثرہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ امداد ہو سکے۔ متاثرین کی مدد کے لیے مذہبی جماعتوں کے ساتھ افواج پاکستان نے بھی مختلف مقامات پر امدادی کیمپ لگا رکھے عوام زیادہ سے زیادہ رقوم متاثرین کی مدد کے لیے دینی چاہیے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان سترہ ملکوں میں ہوتا ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہو جائے گی۔اس وقت دنیامیں46 ہزار ڈیم ہیں ۔چین 22 ہزار ڈیم بنا چکا ہے جب کہ بھارت 4500بنا چکا ہے۔بعض حلقوں کے مطابق بھارت نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے سیاست دانوں میں اربوں روپے تقسیم کئے ہیں۔







