سیلاب، تباہی اور بے حسی .. روشن لعل

روشن لعل
مون سون 2022 کے دوران برسنے والی غیر معمولی بارشوں نے پاکستان میں جو تباہی برپا کی ہے اس کے مناظر گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے کراچی کے ساحل تک جگہ جگہ نظر آرہے ہیں۔ اس تباہی کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ شدید بارشوں کا پانی 22 اگست 2022تک پورے ملک میں830 قیمتی انسانی جانیں نگل چکا ہے ۔ مرنے والوں میں 337 مرد 180 عورتیں اور313 بچے شامل ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے2887 کلومیٹر سڑکیں، 129 پل اور 50 دکانیں تباہ ہو چکی ہیں۔ مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھرپون تین لاکھ جبکہ جزوی طور پر تباہ ہونے والے گھروں کی سولاکھ ہے۔ سیلاب کے دوران 707388 مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔سیلاب نے ملک کے116اضلاع کے مختلف علاقو ں کے باسیوں کو انتہائی بری طرح متاثر کیا ہے۔ملک بھر میں جہاں سیلاب کی تباہیوں کے واضح مناظر نظر آرہے ہیں وہاں ریاستی اداروں کی امدادی کارروائیوں کی دبی دبی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ آسمان کی بلندیوں سے نظر آنے والی تباہیوں کے سامنے زمین پرامدادی سرگرمیاں قریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان نام نہاد امدادی سرگرمیوں کے پس پردہ کچھ نظر آرہاہے تو وہ انتہائی مکروہ قسم کی بے حسی ہے جو اس وقت بھی موجود تھی جب سیلاب برپا کرنے والی بارشوں کی ابھی ایک بوند بھی زمین پر نہیں گری تھی اور اب بھی ہے، جب سیلاب زدگان بری طرح بلک اور تڑپ رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ رواں مون سون کے دوران انتہائی غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں۔ بارشیں کس قدر غیر معمولی ہیں اس کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتاہے کہ ملک میں گزشتہ تیس برسوں میں مون سون کے دوران اگر بارشوں کی سالانہ اوسط 128 ملی میٹر رہی تو اس سال اب تک 340.70 ملی میٹر بارشیں برس چکی ہیں جو سابقہ اوسط سے 166 فیصد زیادہ ہیں۔ملک کے صوبوں اور مختلف انتظامی یونٹوںکو الگ الگ دیکھا جائے تو بلوچستان میں بارشوں کی گزشتہ تیس برس کی اوسط 58.4 ملی میٹر تھی مگر اس سال 370.89 فیصد زیادہ یعنی 275 ملی میٹر بارشیں برس چکی ہیں۔ صوبہ سندھ کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں گزشتہ تیس برس کی بارشوں کا اوسط ریکارڈ 117.6 ملی میٹر ہے جبکہ اس برس 587.7 ملی میٹر بارشیں برسیں جو396.34 فیصد زیادہ ہیں۔ گلگت بلتستان میں تاحال گزشتہ تیس برسوں کی اوسط سے 91.53 فیصد زیادہ یعنی 67.8 ملی میٹر ، خیبر پختونخوامیں 27.01 فیصد زیادہ ، یعنی 287.3 ملی میٹر ، پنجاب میں 87.26 فیصد زیادہ یعنی 389.5 ملی میٹر بارشیں برس چکی ہیں جبکہ آزاد جموں و کشمیر میںگزشتہ تیس برسوں کی اوسط کے قریباً مطابق 350 ملی میٹر بارشیں برسی ہیں۔
رواں مون سون کے دوران برسنے والی شدید بارشوں کا گزشتہ تیس برس کی اوسط بارش سے موازنہ کرنے کے بعد ذہن میں یہ خیال آنا کوئی عجیب بات نہیں کہ جس ملک میں معمول کی بارش آفت جیسے حالات پیدا کردیتی ہو ، وہاں کیسے ممکن ہے کہ بعض علاقوں میں قریباً چار سو فیصد زیادہ بارشیں تباہی برپا نہ کریں۔ پاکستان کے سیاق و سباق میں تو تباہی والی بات درست تسلیم کی جاسکتی ہے مگر عالمی سطح پر ہو چکی سائنسی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوئے اب تک ہو چکے جانی و مالی نقصان کو قابل جواز تصور نہیں کیا جاسکتا۔ سائنسی ترقی کسی بھی قسم کے سیلاب جیسی آفتوں کے امکان کو ختم تو نہیں کر سکی مگر اس کی وجہ سے ایسے وسائل ضرور پیدا کیے جاچکے ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے سیلاب جیسی آفتوں سے ہونے والے نقصان کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے برپا ہونے والے شہری سیلاب نے جو نقصان پہنچایا ، اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ بارشوں سے پہلے ، بارشوں کے دوران اور بارشوں کے بعد بھی سائنسی ترقی کا مفاد عامہ میں اس طرح استعمال ہی نہیں کیا گیا جس طرح کیا جانا چاہیے تھا۔سائنس تمام قدرتی آفتوں کے امکان کو تو ختم تو نہیں کر سکی مگر اس نے ایسی سہولتیں ضرور فراہم کردی ہیں کہ جن کے ذریعے کسی آفت کی آمد سے بہت پہلے اس کے آنے کے امکان اور حجم کا اندازہ لگانے کے بعد ممکنہ نقصان سے بچائو کے لیے پیشگی حفاظتی انتظامات کر لیے جائیں۔
بے پناہ جانی و مالی نقصان کا باعث بننے والی شدید بارشیں تو یہاں جولائی میں برسنا شروع ہوئیں مگر سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم نے 28 اپریل کو ہی یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ جنوبی ایشیا میں مون سون 2022کے دوران معمول سے زیادہ بارشیں برسیں گی۔ واضح رہے کہ سائوتھ ایشین
کلائمٹ آئوٹ لک فورم کی جس ٹیم نے اپنے آن لائن اجلاس میں معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی اس ٹیم میں پاکستان کے نمائدے بھی شامل تھے۔ سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورٖم نے جنوبی ایشیا کے جس نقشے کے ذریعے اپنی پیش گوئی کی وضاحت کی اس میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں معمول سے 35 تا75 فیصد زیادہ بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم کی طرف سے مون سون کی آمد سے دو ماہ پہلے شدید بارشوں کی پیش گوئی سامنے آنے کے بعد یہ بھی ہوتا رہا کہ شدید بارش کے ہر مرحلے سے قبل ہمارا مقامی محکمہ موسمیات یہ اطلاع دیتا رہا کہ کس علاقے میں کس شدت کے ساتھ کتنے دن تک بارش برس سکتی ہے۔ سائنس نے اپنے جدید آلات کی بدولت صرف بارشوں کے آفت میں تبدیل ہونے کی پیش گوئی کرنے کا بندوبست ہی نہیں کیا بلکہ یہ بھی وضع کر رکھا ہے کہ آفت کے متوقع متاثرین کو کیسے تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
سائنسی ترقی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن علاقوں کے لیے شدید بارشوں کی پیش گوئی ہوچکی تھی ان کے مکینوں کو بہت پہلے اطلاع کر دی جاتی کہ وہ کس قسم کے خطرات کی زد میںآچکے ہیں۔ افسوس کہ ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہ آسکا ۔ مہذب معاشروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی علاقے کے لیے سیلاب جیسی صورتحال کی پیش گوئی سامنے آچکی ہو تواس آفت کے ظہور سے پہلے ہی وہاں کے باسیوں کا ان کے مال مویشیوں سمیت انخلا ممکن بنانے کے بعد کسی محفوظ مقام پر منتقلی کا پیشگی انتظام بھی کر لیا جاتا ہے۔ اس محفوظ مقام پر ان کے لیے خوراک کی فراہمی اور صحت کے تحفظ کے انتظامات بھی ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کا آخری مرحلہ یہ ہوتاہے کہ جب آفت کا زور ٹوٹ جائے تو پھر متاثرین کی مکمل بحالی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ افسوس کہ وطن عزیز کے جن علاقوں میں سیلاب زدگان اس وقت بے یارو مددگار پڑے ہیں وہاں دیگر سہولتوں کی فراہمی کے انتظامات کرنا تو درکنار، لوگوں کو یہ تک نہیں بتایا گیا تھاکہ ان کے علاقوں میں شدید بارشوں کا کس حد تک امکان موجود ہے۔جن لوگوں کی بے حسی کی وجہ سے سیلاب زدگان کی زندگی اس وقت اجیرن بنی ہوئی ہے،یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اصل میں وہ کون لوگ ہیں۔







