ColumnKashif Bashir Khan

نیئرہ نورخاموش ہو گئی!‎‎ .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

اسی کی دہائی میں جہاں پاکستان میں موسیقی زوال پذیر تھی وہاں بھارت اور امریکہ و برطانیہ سمیت یورپ میں میوزک کا عروج تھا۔پاکستان میں اسی کی دہائی میں اچھی اردو فلمیں بنناقریباً بند ہو چکی تھیں اور پنجابی فلموں نے سینماؤں پر قبضہ کر لیا تھا۔پاکستان کے صف اول کے پلے بیک گلوکار جن میں مہدی حسن، اے نیئر،اخلاق احمد،مہناز،مسعود رانا وغیرہ شامل تھے، کی آوازوں کو عوام کو سنوانے والا کوئی نہیں تھا۔جب کہ بھارت میں لتا،کشورکمار،۔آشابھونسلےاور دوسرے گلوکاروں نے دنیا بھر میں دھوم مچائی ہوئی تھی، مغرب میں دیکھیں تو آج بھی اسی کی دہائی میں پاپ،کنٹری اور ڈسکو وغیرہ میں مختلف بینڈز اور سنگرز کے گائے گانے یاد اور سنے بھی جاتے ہیں۔

پاکستان کواستاد مہدی حسن جنہیں شہنشاہ غزل بھی کہا جاتا ہے اور نور جہاں جیسی قداور گلوکارہ میسر تھی لیکن اردو فلموں کے زوال کے بعد پلے بیک گانوں میں مہدی حسن سمیت تمام ہی بڑی آوازیں خاموش ہو گئیں جبکہ مادام نور جہاں نے اپنی گائیکی کاسارا فوکس پنجابی گانوں کی طرف کر لیا۔غزل گائیکی میں مہدی حسن، میڈم نور جہاں،اقبال بانو،منی بیگم، استاد غلام علی، استاد فتح علی خان،استاد حامد علی خان جیسے لاتعداد عالمی شہرت یافتہ گائیک پاکستان میں موجود تھے، لیکن اس دور میں بھی ان تمام بڑے ناموں کی حکومتی سطح پر کوئی خاص پذیرائی نہیں کی جاتی تھی۔ بھارت میں جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی جوڑی نے غزل کو جدید میوزک کے ساتھ گیٹ کے انداز میں گانے کا جب سلسلہ شروع کیا تو نوجوانوں کو اپنی طرف تیزی سےراغب کیا۔پاکستان میں فیض احمد فیض کے انتقال کے بعد اچھی شاعری کا بھی جیسے خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔بعد کے سالوں میں حبیب جالب

اور منیر نیازی وغیرہ کے انتقال سے تو جیسے ناصر کاظمی،مصطفی زیدی، مجید امجداور احسان دانش وغیرہ کے بلند معیار کی شاعری بالکل ناپید ہو گئی تھی۔آج اس قبیلے کے امجد اسلام امجد کی شکل میں بلند پایہ شاعر ہم میں موجود ہیں ورنہ غالب، فیض،ناصر کاظمی اور مجید امجد وغیرہ کو پڑھنے اور ماننے والوں کے لیے شاعری کرنے والا کوئی اور نظر نہیں آتا ہے۔بات موسیقی سے شروع ہوئی اور شاعری تک پہنچ گئی۔

فیض احمد فیض سے اختلاف کرنے والے بھی انہیں انقلابی شاعر مانتے ہیں اور ان کی شاعری واقعی بلند پایہ اور انقلابی ہے۔مہدی حسن اور نور جہاں وغیرہ نے فیض احمد فیض کی رومانوی شاعری کو خوب گایا لیکن نوجوان نسل میں فیض احمد فیض کے کلام کو زبان زد عام کرنے والوں میں پہلے اقبال بانو پھر ٹینا ثانی اورنیئرہ نور نے کمال کر دیا۔پاکستان کے نوجوان طبقے کو اصل شاعری کی طرف راغب کرنے میں بہت بڑا کردار ان تین خواتین کا ہے۔ہم ان تین خواتین کی شخصیتوں کا جائزہ لیں تو تینوں ہی اپنے اپنے ہم عصر گانے والوں سے انتہائی مختلف تھیں۔گویا خالص شاعری کو سمجھ کر اور پھر اس کلام میں ڈوب کر گانے میں یہ یکتا تھیں۔

بات اس سے بھی پرانی ہے اور میں سکول میں پڑھا کرتا تھا کہ پی ٹی وی سے ایک ڈرامہ شروع ہوا جس کا نام ’’تیسرا کنارہ‘‘تھا۔ ڈرامے کی کاسٹ میں شفیع محمد، عثمان پیرزادہ، راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی شامل تھے۔اس ڈرامہ کا تھیم سونگ’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘سننے کو ملتا تھا۔یہ ایک نظم تھی اور اتنے اسلوب سے گائی گئی تھی کہ میوزک کو میرے جیسے نہ سمجھنے والے کے بھی دل میں اتر جاتی تھی۔جب کالج میں پہنچے اور میوزک کو تھوڑا تھوڑا سمجھنے کہ کوشش کی تو معلوم ہوا تھا کہ یہ نظم نیئرہ نور نے گائی ہے۔اسی کی دہائی میں پاکستان میں ای ایم آئی کمپنی پاکستان میں پاکستانی گلوکارائوں کے کیسٹ ریلیز کیا کرتی تھی۔مجھے یاد ہے نوجوانوں کو ان دنوں میں محمد علی شہکی اور عالمگیر کا کریز ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نازیہ حسن اور ذوہیب حسن بھی پاپ میوزک میں دنیا بھر میں مشہور ہو چکے تھے۔اس وقت پاکستان بھر کے ہر بازار میں کیسٹس کی دکانیں ہوا کرتی تھیں،جہاں سے لوگ اپنی پسند کے کیسٹ خرید کر سنا کرتے تھے۔لاہور میں مال پر ای ایم آئی سینٹر تھا جہاں سے ہر قسم کے پاکستانی گانے دستیاب ہوا کرتے تھے۔تمام مشہور گلوکاروں کے ساتھ نیئرہ نور کی بھی کیسٹس وہاں رکھی ہوتی تھیں لیکن باقی گلوکاروں کے برعکس نیئرہ نور کی سادہ سی تصویر والی کیسٹ دستیاب ہوتی تھی۔اس تصویر کو دیکھ کر لگتا تھا گویا کوئی کالج کی لڑکی ہو۔اگلے بہت سے سالوں تک نیئرہ نور کی وہ ہی سادہ سے تصویر مختلف کلر کے شیڈز کے ساتھ مارکیٹ میں نظر آتی رہی۔مجھے یاد ہے میں بھی

ایک مرتبہ نیئرہ نور کی ایک کیسٹ خرید کر لایا جس میں سے ایک گانا’’روٹھے ہو تم،تم کو کیسے مناؤں پیا‘‘میں نے بار بار سنا تھالیکن نو عمر ہونے کی وجہ سے مجھے ان کا گایا ہوا باقی کلام کچھ بھایا نہیں تھا۔آنے والے سالوں میں جب فیض احمد فیض،منیر نیازی اور غالب جیسے بڑے شعراء کو پڑھا اور بالخصوص جب بھارت میں جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ نے اسد اللہ غالب کو دوبارہ سے ڈرامے میں گا کر زبان زد عام کیا تو پھر پاکستان میں بھی نوجوانوں نے اچھے کلام کی طرف راغب ہونا شروع کردیا۔میرا نیئرہ نور کی گائیکی کی طرف راغب ہونے کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔فیض احمد فیض کی مشہور نظم’’آج بازار میں پا بجولا چلو‘‘ کے بارے کہیں پڑھا کہ سازش کیس میں ایک دن جب انہیں عدالت لے کرجانے کا وقت ہوا تو پولیس کے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی یا پھر ان کی تذلیل کے لیے انہیں چند پولیس والے ہتھکڑیاں لگا کر ایک تانگے میں عدالت لے کر جا رہے تھے کہ لوگوں نے ان کو پہچان لیا اور عوام کا جم غفیر جمع ہو گیا۔فیض احمد فیض نے اس وقت میں اپنی شہرہ آفاق غزل’’آج بازار میں‘‘کہی جو تاریخ نے محفوظ کر لی۔چند ہی دنوں کے بعد جب میں نے نیئرہ نور کی آواز میں یہ نظم سنی تو یقین کیجیے میں نیئرہ نور کی گائیکی کا دیوانہ وار عاشق ہو گیا تھا۔اس انقلابی نظم کو اس کے لکھنے والے کے وقت،حالات و واقعات کے تناظر میں آپ سنیں تو یقین کریں کہ آپ کھو جائیں گے اور نیئرہ نور کے بہت بڑے پرستار بن جائیںگے۔ فیض احمد فیض کی ایک غزل’’مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا،سر بزم آج یہ کیا ہوا‘‘کو سننے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس ایسی سنگر تھی جو نہ صرف این سی اے جیسے ادارے کی فارغ التحصیل بلکہ کسی بھی کلام کی گہرائی میں جا کر اسے سریلے انداز سےگانے پر ملکہ رکھتی تھی۔

بہت سال قبل ہمارے دوست رانا زاہد مرحوم سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ نیئرہ نور تو ہمارے سابق ہیڈ پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ شاہنواز زیدی کی بھابھی ہیں۔مشہور اداکار شہریار زیدی ان کے خاوند اور ماضی کی مشہور نیوز کاسٹر یاسمین واسطی ان کی نند تھیں۔خیر ایک دن ہم ان کو ملنے پہنچ گئے ،زاہد رانا سے ان کا پہلے بھی شاہنواز زیدی کی وجہ سے ملنا ملانا تھا۔میں اس بہت بڑی سنگر جو سروں کی ملکہ اور اچھی شاعری کو امر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی، کی سادگی دیکھ کر پریشان ہو گیا اور جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کم کیوں گاتی ہیں تو ان کا جواب تھا’’میری ترجیح میرا گھر اور اہل خانہ ہیں‘‘۔ بے شمار فلموں میں گانے اور امر غزلیں گانے والی نیئرہ نور کبھی بھی کسی قسم کی دوڑ میں شامل نہ ہوئیں اور مجھے اس بات کا افسوس ہمیشہ رہے گا کہ اقبال بانو، اے نیئر کی طرح میں نیئرہ نور کا ٹی وی پر انٹرویو نہ کرسکا کہ متعدد بار رابطوں کے بعد ان کا جواب یہ ہی ہوتا تھا کہ میں’’میڈیا سے دور ہی رہتی ہوں‘‘جب میں نے انہیں کہا تھا کہ وہ تو پاکستان کی اگلی نسل کے لیے رول ماڈل ہیں اور آپ کو پروگرام میں آنا چاہیے کہ آپ آنے والی نسل کو اچھا پیغام دے سکیں تووہ آمادہ ہو گئی تھیں اور کہا تھا کہ’’اب تو میں کراچی ہوں جب لاہور آؤں گی تو پھر دیکھیں گے‘‘۔ اس کے بعد پھر بات نہ ہو سکی اور گزشتہ دنوں ان کے انتقال کی افسوسناک خبر سامنے آنے سے احساس ہوا کہ ہم کتنی بڑی شخصیت سے محروم ہو گئے۔موجودہ ملکی سیاسی حالات میں نوجوان نسل کو ان کا گایا ہوا بالخصوص فیض احمد فیض کا کلام ضرور سنناچاہیے کہ وہی یہ سن کر حقیقی گائیگی اور مقصدیت سے آشنا ہو جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button