کراچی میں تحریک انصاف کی کامیابی .. علی حسن

علی حسن
سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا جائزہ لینے کا ایک عمومی طریقہ انتخابات ہی ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں گیلپ سروے وغیرہ لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں رہتے اور لوگ ان کے نتائج پر کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔ لوگوں کو تو بس یہی نظر آتا ہے کہ کون کامیاب ہوا ہے خواہ اسے کتنے ہی ووٹ کیوں نہ ڈالے گئے ہوں۔ کراچی میں ہی اتوار 21 اگست کو ہوئے ضمنی انتخاب کے نتیجہ کو ہی دیکھ لیں۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے عامر لیاقت حسین کی موت کی وجہ سے یہ نشست خالی ہوئی تھی۔ اس نشست پر ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے تحریک انصاف، ایم کیو ایم، تحریک لبیک ، مہاجر قومی موومنٹ ،سابق میئر کراچی اور سابق رکن قومی اسمبلی فاروق ستار امیدوار تھے مگرپاکستان تحریک انصاف نے کراچی کے اس ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 245 میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔
تحریک انصاف کے محمود باقی مولوی 29475 ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے۔ ایم کیو ایم امیدوار معید انور 13193 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار محمد احمد رضا نے 9836 ووٹ حاصل کیے۔ آزاد امیدوار فاروق ستار نے 3479 ووٹ اورمہاجر قومی موومنٹ کے محمد شاہد کو 1177 ووٹ ملے۔ پانچ لاکھ سے زائد ووٹروں کے حلقہ میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار 16282 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے ۔حلقے میں ووٹنگ ٹرن آٹھ اشاریہ گیارہ فیصد رہاجو سیاسی جماعتوں کے لیےتازیانہ ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پیر کے روز فیصلہ کیا گیا کہ کسی صورت قومی اسمبلی میں دوبارہ نہیں جائیں گے اور موجودہ حکومت سے مذاکرات صرف الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد ہی ممکن ہیں۔
2018 کے عام انتخابات میں عامر لیاقت حسین اس حلقے سے 56 ہزار 615 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔تحریک انصاف کے امیدوار مقبولیت کے پہلے پائیدان پر بھی نہیں تھے جو مقبولیت عامر لیاقت طویل عرصہ ٹی وی انکر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے ، بہترین مقرر ہونے اور کراچی میں جانی پہچانی شخصیت ہونے کی وجہ سے حاصل تھی لیکن تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیابی در اصل عمران خان کو حاصل شدہ مقبولیت کی مرہون منت نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف یا امیدوار
محمود مولوی نے حلقہ انتخاب میں دھیلے کا الیکشن ورک نہیں کیا۔ مخالفین خصوصاً ایم کیو ایم نے بھی کوئی الیکشن ورک نہیں کیا بلکہ سب اس خوش فہمی میں رہے کہ عوام تو ان کے ’’غلام ‘‘ ہیں جو اپنے آقائوں کو ہی ووٹ دیں گے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہوا اور اس کا رخ بدل گیا ہے۔2018 میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار کو ٹکٹ ملا جنہوں نے عامر لیاقت حسین کے مقابلے میں 36 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ جو چراغ کافی عرصے سے جل رہے تھے ، اب اس لیے جلنے والے نہیں کہ ان کا تیل ختم ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کے کراچی کے رہنمائوں نے 2018میں کامیابی کے بعد سے اب تک عوام سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا۔ جن کو وفاق میں وزارت ملی، جن کو صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن ہونے کی وجہ سے اہمیت اور مراعات حاصل رہیں وہ بھی کراچی میں کسی موقع پر عوام میں نہیں آئے۔ ان کا ایک ہی زور رہا کہ ٹی وی چینل پر نمودار ہوجائیں اور عوام کے لیے اپنی نام نہاد خدمات کا دھنڈورا پیٹ سکیں۔ کراچی یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں سیاست کرنے والے عوام سے اس طرح دور رہتے ہیں جیسے عوام نہیں کوئی چھوت کی بیماری ہے۔ سیاست اس طرح نہیں چلتی۔
یہ حلقہ کراچی کی وہ آبادی پر مشتمل ہے جو بہت قدیمی ہے اور جہاں تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت رہائش رکھتی ہے ۔ یہ لوگ اپنی تعلیم سے اپنی روزی کماتے ہیں یا اپنی محنت مزدوری سے اپنا روزگار کرتے ہیں۔ حلقے میں شامل کچھ بڑے علاقوں میں لائنزایریا، جٹ لائنز، اے بی سینا لائن، مارٹن کوارٹرز، پی ای سی ایچ ایس، طارق روڈ، سولجر بازار، پٹیل پاڑہ، گارڈن ایسٹ، نیو ٹاؤن، پی آئی بی کالونی، جمشید روڈ، جہانگیر روڈ، خداد کالونی ، لسبیلہ چوک اور پاکستان کوارٹرز ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے تحریک انصاف نے محمود مولوی کو امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا تھا جو غیرمقامی شخصیت تھے اور ان کا تعلق کلفٹن سے ہے ، انہیں حلقہ این اے 245 کے اصل مسائل کا ادراک بھی نہیں ۔ حلقہ میں اس قدر مسائل ہیں کہ اگر انہیں حل کرنے میں پی ٹی آئی نے مدد نہیں کی تو لوگ اس سے بھی آئندہ الیکشن کے بعد متنفر ہو جائیں گے۔ یہ حلقہ ماضی میں صد فیصد ایم کیو ایم کے حامیوں کا تھا۔ اب ایم کیو ایم والے بلاشبہ سر پیٹیں، سر دھنیں، وہ دن اب کہاں جب اشاروں پر بے چارے لوگ ووٹ ڈالنے نکلتے تھے۔ لوگ ذہنی تکلیف کا شکار اور کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماء آپس میں بحث اور الزامات کی ایک دوسرے پر بوچھاڑ میں مصروف ہیں لیکن انہیں پھر بھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ وہ مختلف علاقوں میں کارنر میٹنگ کر کے اپنے سیاسی اقدامات کی وضاحت کریں یا دفاع کریں ورنہ آئندہ عام انتخابات میں سب ہی دبئی ، امریکہ جا کر بیٹھ جائیں ۔ میدان میں اعلان کردیں کہ نوجوان میدان میں اتریں اور اپنا حق حاصل کریں۔
کراچی شہر کے قلب میں واقع مہاجر آبادی پر مشتمل این اے 245 میں تحریک انصاف نے متحدہ قومی موومنٹ کو بڑی شکست سے دوچارکیا۔ ایم کیو ایم نے 2018 سے احتجاج کیا ہوا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی سیٹیں چھین کر تحریک انصاف کو دے دی تھیں۔ تحریک انصاف نے بھی کراچی کو وفاق میں حکومت ہونے کے باوجود کچھ نہیں دیا تھا البتہ ایم کیو ایم کے اراکین کو وفاقی فنڈ مہیا کئے تھے تاکہ ترقیاتی کام کراسکیں۔اکثر اراکین نے سڑکوں کی تعمیر کرائی جو تجربہ کار لوگوں کے مطابق ناقص تعمیرات کرائی گئیں۔ اب تو تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یا سرپرستی حاصل نہیں ہے پھر پیپلز پارٹی،جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) اور اے این پی کی حمایت بھی ایم کیو ایم کو حاصل تھی لیکن اس کے باوجود وہ ووٹ حاصل نہیں کرسکے۔ انہوں نے احسان بھی لیا جو کسی کام کا نہیں رہا۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو اندازہ نہیں ہے کہ تاریخ قرضہ معاف نہیں کرتی۔ لوگ تو معاف کرنے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ ’’لیڈروں‘‘ سے کیوں کر بات کر سکتے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے اور کامیابی کے بعد امیدوار اس طرح غائب ہو جاتے ہیں جیسے ان کا اس حلقہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ لوگوں کے دکھ درد میں سامنے نہیں آتے ۔ ایم کیو ایم ہو یا تحریک انصاف یا کوئی بھی اور جماعت، انہوں نے ایک وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ عوام سے ملاقات کرنے کا کوئی وقت ہی نہیں نکالتے ہیں۔







