
سی ایم رضوان
سابق وزیراعظم عمران خان نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو پی ٹی آئی کے خلاف زیر سماعت فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس کے نوٹس پر جواب دینے سے انکار کیااور اپنے تحریری جواب میں لکھا کہ میں آپ کو جوابدہ ہوں نہ ہی معلومات فراہم کرنے کا پابند البتہ دو دن میں نوٹس واپس نہ لیا تو قانون کے تحت آپ کے خلاف کارروائی کروں گا۔ ان کا موقف ہے کہ تفصیلات اور دستاویزات طلب کرنا ایف آئی اے کے کسی ادارے یا حکومت کے زیر اثر ہونے کا مظہر ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن نے فیصلہ نہیں دیا بلکہ رپورٹ جاری کی ہے دوسری طرف ایف آئی اے کے پاس پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت کارروائی کرنے کا اختیار نہیں لہٰذا پی ٹی آئی کو جاری کیا گیا نوٹس ایف آئی اے ایکٹ سے بھی متصادم ہے۔ یادرہے کہ یہ موقف وہ قومی لیڈر پیش کررہا ہے جو اپنے مخالفین کو تلاشی دینے کا پابند قرار دیتا رہا جو اپنے اقتدار میں آنے کا نصب العین بے ضابطگیوں کی تحقیقات کروانا بتاتا رہا اور طاقتور کو قانون کا ہر حال میں پابند اور جوابدہ بنانا اپنی سیاست کا مقصد بتاتارہا۔ یہ کوئی نئی روایت نہیں اس سے پہلے حکومت میں رہنے اور حکومت سے محروم ہوجانے والے قریباً ہر سیاستدان نے یہی روش اختیار کی ہے۔ البتہ کچھ مجبور ہو کر جیلوں میں بھی گئے اور کچھ بچ بھی گئے لیکن یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی ملزم سے ملک وقوم کا لوٹا پیسہ کبھی بھی کوئی بھی واپس نہیں لا سکا۔
احتساب کا نعرہ ایسا نعرہ ہے جو ہر حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے بھر پور انداز میں لگاتی ہے اور اقتدار
میں آنے کے بعد سب سے پہلے اسے فراموش کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی قوم آج تک اس تسلسل کے پیچھے چھپی حقیقت کو نہیں سمجھ سکی۔ ہمارے حکمرانوں نے 70 سالوں سے نعروں میں الجھا کر قوم کو حقیقت سے دور رکھا ہے۔ حکومتیں بننے سے ٹوٹنے تک، پارٹیاں بکھرنے سے پارٹیوں کی تخلیق تک، پالیسیاں بننے سے ان پر عمل درآمد تک، حکومتوں کے لیے انتخابات سے حکمرانوں کے انتخاب تک، نہ توجمہور کا کوئی کردار رہا ہے نہ جمہوریت کا کوئی عمل دخل یا تسلسل ایسے میں وہ لوگ کیا خاک احتساب کریں گے جو خود قابل احتساب ہوں۔ جنرل مشرف نے احتساب کا نعرہ لگایاتو پوری قوم مشرف کے ساتھ کھڑی ہو گئی مگر جب اقتدار کی ہوس نے آئین قانون اخلاقیات اصول اور احتساب کو پائوں تلے روندا تو وہ تمام مبینہ چور لٹیرے ایوان صدر میں موجود تھے جنہیں جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے قبل چور چور کی کہانی پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے شروع کی تھی جو طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی شدید ترین حریف بھی رہی ہیں تاہم اب وقت نے انہیں ساتھ تو ملادیا ہے مگر آج بھی ان کی آنکھ مچولی جاری ہے مسلم لیگ نون نے ہمیشہ احتساب کے بڑے بڑے دعوے کیے مخالفین پر مقدمات بنے، سیاسی حریفوں کو جیلوں میں ڈالا، احتساب کمیشن بھی بنائے گئے مگر حاصل وصول کچھ بھی نہ ہوا۔ آخر کار پیپلز پارٹی کی قیادت تمام مقدمات میں بری ہو گئی۔ اس حقیقت کو تو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ ہر دور میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی رہی ہے، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران اور ان کے حواری قومی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے رہے اور قومی خزانے کو لوٹ کر بیرون ممالک میں دولتوں کے انبار لگاتے رہے مگر احتساب ہمیشہ نعروں میں رہا۔2018 کی انتخابی مہم اور اس سے قبل کنٹینر کے علاوہ اپنے ہر جلسے، خطاب اور پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہمیشہ کڑے اور بے رحمانہ احتساب کے دعوے کرتے رہے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے وعدے کرتے رہے۔ لوگوں نے ان کے اس دعوے پر کسی حد تک اعتماد بھی کیا کہ شاید تیسری قوت کے طور پر آنے والے عمران خان واقعی کڑے اور شفاف احتساب کی بنیاد ڈال کر قوم کو کرپشن کی لعنت سے بچا لیں مگر ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد جب احتساب کے حوالے سے ان کی حکومت کی کارکردگی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو احتساب بھی صرف اتنا ہی دکھائی دیا جتنی اس ملک میں تبدیلی دکھائی دیتی تھی۔
سوال پھر وہی تھا کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کتنی واپس لائی گئی اور کتنے بڑے چوروں کو سزا ہوئی آج جب کہ وہ حکومت سے ہٹا دیئے گئے ہیں تو سوال موجود ہے جواب کوئی نہیں۔ وطن عزیز میں کرپشن ختم نہ ہونے، چوروں لٹیروں کو سزائیں نہ ہونے اور حقیقی طور پر احتساب نہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے احتساب کے اداروں کو ہمیشہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف احتساب کا عمل مشکوک رہا بلکہ کمزور کیسز کی وجہ سے ہمیشہ ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف ملتا رہا آج بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے کرپشن کے خلاف اور احتساب کے حق میں جتنے مضبوط دعوے کیے تھے، عدالتوں میں ان کے کیس اتنے ہی کمزور ثابت ہوئے۔ یادرہے کہ احتساب کا عمل اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہو سکتا جب تک احتساب کی شفاف اور بلا امتیاز کارروائی کا آغاز نہیں کیا جائے گا، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو احتساب کے حوالے سے اپنی ساڑھے تین سال کی کارکردگی کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے اور موجودہ حکومت کو بھی اپنے پانچ ماہ کی کارکردگی دیکھنی چاہیے کیونکہ اب تک کی صورتحال میں احتساب کا نعرہ محض نعرہ ہی رہا ہے اور یہ نعرہ اس وقت تک حقیقت میں تبدیل نہیں ہو سکتاجب تک اپنے پرائے سب احتساب کے شکنجے میں نہیں جکڑے جاتے اور عملی طور پر ملک کی لوٹی ہوئی دولت چوروں اور لٹیروں کے حلق سے نہیں نکالی جاتی۔
تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے عمران خان کے مذکورہ بالا جواب کے خلاف پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے حوالے سے عمران خان کا موقف مسترد کر دیا ہے۔ایف آئی اے کی جانب سے سوالات کے جواب کے لیے عمران خان کو دوبارہ نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی نے تحریری جواب سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کے ذریعے ایف آئی اے کمرشل بینک سرکل اسلام آباد کی ڈپٹی ڈائریکٹر آمنہ بیگ کو بھجوایا تھا۔ قوم دیکھ رہی ہے کہ ابھی صرف عمران خان پر الزامات ہیں حقائق تبھی سامنے آئیں گے جب ایف آئی اے مکمل تحقیقات کر لے گی اور یہ تحقیقات تبھی مکمل ہوں گی جب عمران خان ایف آئی اے کے نوٹسز کا جواب دیں گے ورنہ احتساب سے فرار کی روش کا تسلسل جاری رہے گا اور قانون کی حکمرانی تسلیم نہ کرنے کی روایت کو مزید وسعت ملے گی۔
اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی بارہ جماعتوں کی حکومت قائم ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان پر مختلف معاملات میں کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات ہیں اب بھی اگر موجودہ حکومت احتساب کے عمل کو شفاف موثر اور غیر جانبدار بنانے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر احتساب کا آغاز نہ کر سکی تو پھر اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ووٹ کی پرچی بھی تو احتساب کی پرچی ہے حکمران اگر اب بھی احتساب نہیں کریں گے تو پھر عوام تو آئندہ انتخابات میں ہر سیاستدان کا احتساب کرنے کا حق رکھتے ہیں اور وہ احتساب کا نعرہ لگا کر احتساب نہ کرنے کی بدترین روش کے پیروکار سیاستدانوں اور حکمرانوں کا احتساب ضرور کریں گے۔







