ColumnImtiaz Ahmad Shad

سیلاب کی تباہ کاریاں اور طوفانی جلسے .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

کسی بھی ریاست کی ترقی اور تنزلی کے اسباب معلوم کرنا ہوں تو حکمرانوں کی ترجیحات اور ان کے فیصلے دیکھے جاتے ہیں۔ حکمران عوامی مسائل حل کرنے کے لیے ریاست کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانیت کی خدمت کو اولین ترجیح سمجھتے ہیں تو یقیناً ریاست ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہے اور اگر عوامی مسائل حکمرانوں کی ترجیحات کا کسی بھی سطح پر موضوع نہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ریاست تیزی سے تنزلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ریاست کو مضبوط کرنے کے لیے دو شعبے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ایک صنعت اور دوسرا زراعت۔افسوس پاکستان کے یہ دونوں شعبے ہر لحاظ سے تنزلی کا شکار ہیں۔ صنعت کوتوایک روبہ زوال ہوئے ایک عرصہ ہو گیا۔ پاکستان کے بڑے صنعتی یونٹ دوسرے ممالک میں منتقل ہو چکے اور جو موجود ہیں وہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے انتہائی مسائل کا شکار ہیں۔کسی قسم کی سرمایہ کاری کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔رہی بات زراعت کی تو یہ شعبہ پانی سے لے کر زرعی آلات کی عدم دستیابی تک ،زرعی زمینوں کے خاتمے سے لیکر رہائشی سوسائٹیز تک ہر مشکل کا شکار ہے۔جو علاقے زراعت کے لیے بچ گئے وہ ہر دفعہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں آنے سے تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس دفعہ پاکستان میں 2022 کا مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن رہا ہے جس نے ملک کے طول و عرض میں سیلابی کیفیت پیدا کی ہے۔ ملک کے شمال میں گلگت بلتستان سے لے کر جنوب میں کراچی تک ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ اب تک نہیں رکا اور حکومت کو اس سے ہونے والے مالی نقصان کا مکمل تخمینہ لگانے میں مشکلات ہیں۔ پاکستان کے وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے 14 جون سے اب تک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق دو ماہ کے دوران ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں کے باعث 780 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اور ملک کے 109 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔سیلاب اور بارشوں سے ایک لاکھ 76 ہزار سے زائد مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی بھی بہہ گئے ہیں۔

سیلاب اور بارش سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ شامل ہیں۔ بلوچستان کے 34 اور خیبرپختونخوا کے 33 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ سندھ کے 23 اضلاع کو صوبائی حکومت نے آفت زدہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے تین اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔دوسری طرف فلڈ فورکاسٹنگ ادارے نے 22 اگست کو سیلابی صورتحال سے متعلق نیا الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 23 اگست سے 26 اگست تک جنوبی پنجاب اور سرگودھا ڈویژنز میں مون سون بارش کے تازہ سلسلے کا امکان ہے جبکہ دریائے سندھ کے بالائی علاقوں میں مزید بارشوں کا بھی امکان ہے۔جس کے باعث 26 اگست تک پنجاب کے ضلع ڈی جی خان کے پہاڑی علاقوں سے مزید پانی آنے اور دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے۔فلڈ فورکاسٹنگ نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ کوہ سلیمان، سالٹ رینج سے منسلک ندی نالوں میں طغیانی کے باعث مشرقی بلوچستان کے علاقے سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں۔دریں اثنا پنجاب اور سندھ کے درمیان سکھر ڈویژن کا ریل کے ذریعے ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے، محکمہ ریلوے نے ٹرین آپریشن معطل کرتے ہوئے ٹرینوں کو مختلف سٹیشنوں پر روک لیا ہے۔اس قدر مشکل ترین وقت میں بھی ہمارے حکمران طبقہ کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں کہ ان دکھی انسانوں کو مشکل سے نکالنے کے لیے اقدامات کرے۔ اس کے برعکس سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے، چور اور ناکام ثابت کرنے کے لیے مگن دکھائی دیتے ہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے حکومت سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ۔حکومت کا زیادہ تررجحان مخالفین کو دبانے اور اپنی حاکمیت قائم کرنے پر مرکوز دکھائی دیتا ہے،حالانکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ کچھ وقت کے لیے سیاست کو ایک طرف رکھ کر سیلاب زدگان سے متاثر ان پریشان حال لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کی جائے۔موجودہ تباہ کن حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت یہ قومی ذمہ داری ہے کہ تمام پاکستانی اس ذمہ داری کی خاطراپنا کردار ادا کریں۔

یہ بات درست ہے کہ مختلف سماجی تنظیمیں اور صاحب حیثیت افراد اپنی اپنی سطح پر انفرادی اور اجتماعی طور پر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آگے آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین بھی مختلف علاقوں میں مون سون کی ان غیر معمولی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کی وڈیوز اور تصاویر شیئر کررہے ہیں تاکہ ا رباب اختیار اور ارباب اقتدار اس پر توجہ دے سکیں۔افسوس کی بات ہے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا رویہ اس سلسلے میں بہت مایوس کن نظر آتا ہے۔اتنے بڑے انسانی المیے کی خبرسے زیادہ ضروری ان کے پاس ملک میں ہونے والی سیاسی گرفتاری ہے جس پر سارا سارا دن ٹرانسمیشن جاری ہے۔ سیلابی پانی میں گھرے مجبور لوگوں کواس وقت سب سے زیادہ ایسی خوراک کی فراہمی کی ضرورت ہے جوکم از کم تین د ن تک قابل استعمال ہو۔ سیلاب زدگان کے لیے پینے کے صاف پانی کا انتظام بھی کرنا چاہیے تاکہ وہ ہیضے اورمختلف وبائی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مریم نواز ہوں یا عمران خان یا پھر مولانا فضل الرحمن یا پھر سب پر بھاری زرداری اس مشکل وقت میں ان آفت زدہ لوگوں کے پاس جاکران کے دکھ میں شامل ہوتے۔ ان کو دلاسہ دیتے،تسلی کے دوحرف ان سے بول دیتے۔ اپنے طوفانی جلسوں اور جواب الجواب میں کی جانے والی پریس کانفرنسوں میں ان بد حال لوگوں کا تذکرہ ہی کردیتے۔ کاش ہمارے سیاستدانوں میں اتنی حساسیت ہوتی کہ وہ اپنے ذاتی اکاونٹس سے کچھ پیسے اس وقت ان سیلاب زدگان کے لیے دے دیتے لیکن ان کو تو اپنی اپنی لڑائیوں سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔ بات ترجیحات کی ہے۔شاید ہماری سیاسی قیادت کے لیے جلسے جلوس اور پریس کانفرنس کرنا ان سیلاب زدگان کے ساتھ ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ابھی وقت ہے ملک کا سوچیں، سب اختلافات، ذاتی رنجشیں بھلا کر ان سیلاب زدگان کی فوری مددکو پہنچیں۔ سیاست تو ہوتی ہی رہے گی لیکن یہ وقت آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کا ہاتھ تھامنے اور ان کو حوصلہ دینے کا ہے۔ ان کو آگے بڑھ کر تحفظ دینےکاہے۔ کاش ہمارے سیاستدان یہ سمجھ سکیں۔ کہنے کو تو سب ملک و قوم کی خدمت کرنے کے دعوے کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں مگر عملی طور پر عوام کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے کوئی بھی میدان میں نظر نہیں آرہا۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جمہوریت کے ان دعویداروں سے بیزار دکھائی دیتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button