ColumnQadir Khan

عربوں کا عالمی کردار .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

 

عرب بھی ترکوں کی طرح تاریخ کا افسانوی سا کردار بن گئے ہیں، ان کا عروج اچانک اور حیران کن تھا اور اس کے نتائج وقت گذرنے کے ساتھ پائندہ تر ہوتے چلے گئے۔ جزیرۃ العرب سے نکل کر عرب، افریقہ اور ایشیا میں پھیل گئے، یورپ ان کے زیر نگین ہوتے ہوتے رہ گیا، حالات نے ایسا باگ پر ہاتھ رکھا کہ ان کے قدم رُک گئے وہ ہسپانیہ تک محدودہو کر رہ گئے لیکن وہاں انہوں نے تہذیب و تمدن کی ایسی شمع روشن کی کہ یورپ بقعۂ نور بن گیا۔ عربوں نے تاریخ انسانیت کے تاریک دور ختم کرکے روشن اور جدید دور کا آغاز کیا ۔ ان کی آمد سے پہلے فکر انسانی نے جو کاوش کر رکھی تھی اور مختلف علوم میں جو ترقی ہوچکی تھی وہ جہالت کی ظلمت میں اس حد تک نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی کہ بازیافت کا امکان نظر نہیں آتا تھا، عربوں نے ایسی جوت جگائی کہ زمین جگمگا اٹھی اور انسان کی کاوش و ہنر مندی کی کھلی کتاب سامنے آگئی ۔ انہوں نے جملہ علوم کو تازگی اور زندگی بخشی اور انہیں انسان کے قدم بہ قدم چلایا۔ ان کے صدقے میں ظلمت، جہالت اور پسماندگی میں کھوئے ہوئے یورپ نے علم و ہنر کی روشنی دیکھی اور وہ زندگی کی بے قابو تڑپ محسوس کرنے لگا، یورپ کی مٹی میں عرب ،تہذیب و تمدن کا بیج بو کر صدیوں کی آبیاری سے اسے تناور درخت نہ بناتے تو اس خطہ ارض کا تاریخ میں شاید ہی کوئی کردار اور حصہ ہوتا اور اقوام عالم اس کے عہد ، اس کے عروج اور اس کے استعمار اور استحصال سے محفوظ رہتیں ۔

یورپ کا عہد شروع ہوا تو عرب ممالک ایک ایک کرکے استعمار کے چنگل میں پھنس گئے ، عثمانی خلافت کے طفیل جو علاقے محفوظ رہ گئے تھے وہ پہلی جنگ عظیم میں استعمار کے قبضے میں چلے گئے۔ عہد یورپ عربوں کے لیے کرب و ابتلا کا دور تھا ۔ وہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے۔ ایک طرف خلافت عثمانیہ تھی جس کا سورج غروب ہورہا تھا، دوسری طرف یورپی سامراج کی کڑکتی دوپہر تھی کہ اس کے دن پر بھی رات کا گمان ہوتا تھا ۔ خود ترک کوشاں تھے کہ یہ سورج ڈوبے، یہ سورج ڈوب بھی رہا تھا اور اسے ڈوبنا ہی تھا کیونکہ صاف نظر آرہا تھا کہ یہ غروب ِ آفتاب نہ پرسکوں رات کی تمہید ہے نہ
صبح روشن کی۔اُن کی خوشی کو غم میں بدل دینا کافی تھا کہ ترکوں اور عربوں دونوں کے لیے یہ عجیب صورت حال تھی ۔ ایک طرف زمانے کے تقاضے دونوں کے اندر زندگی کے دھارے ابھار رہے تھے تو دوسری طرف سامراج اس کوشش میں تھا کہ ان دھاروں میں ترکوں او ر عربوںہی کے گھر بہیں اور وہ دونوں کو اپنے اپنے تصرف میں لے آئے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جمہوریت اور حق خود ارادیت کا خاص طور پر چرچا ہوا اور بعض چھوٹی چھوٹی قوموں تک جداگانہ تشخص تسلیم کرلیا گیا، ان خارجی عوامل میں خلافت عثمانیہ جیسی ہئیت برقرار نہیں رہ سکتی تھی جو داخلی عوامل کی وجہ سے بھی ایک جسد بیمار بن گئی تھی ۔ اس ہئیت کا خاتمہ ترکوں اور عربوں کی آزادی کی صورت میں نکلنا چاہیے تھا، ایسا ہوتا تو وہ دور شروع ہوجاتا جس کا ذکر اقبال علیہ رحمہؒ نے اپنے خطابات میں کیا تھا ۔ یعنی مسلمان اقوام ایک سلطنت میں منسلک ہونے کی بجائے علیحدہ علیحدہ ہوکر آزاد ہوجائیں اور پھر آزادنہ طور پر بین اسلامی تعاون کی صورت پیدا کرتیں ۔ یہ تقاضائے وقت بھی تھا اور عربوں کا جائز حق بھی کہ وہ ترکوں سے آزاد ہوئے۔ یہ علیحدگی اور آزادی خوش آئند تھی لیکن جمعیت اقوام مسلمہ کا تصور حقیقت نہ بن سکا ، اگر یہ تصور عمل پذیر ہوجاتا کہ کسی سامراج اور ان کے گماشتے کو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔ عربوں کو آج بھی قومیت جیسے جائز موقف کی بنا پر جینے نہیں دیا جاتا ۔ عربوں میں اگر ترکوں سے متعلق جو نفرت پیدا ہوئی اور جس کا مظاہرہ افسوس ناک ہوا۔ نیز ان میں جو افتراق آج بھی پایا جاتا ہے ، یہ عربوں کا پیدا کردہ نہیں ۔یہ سامراج کے نامہ ٔ اعمال کی سیاہی ہے جس کی وجہ سے سامراج نے عربوں کے جائز تقاضے کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرکے انہیں اپنی مطلب براری کے لیے ترکوں سے لڑایا ۔ حالات کی رفتار ایسی تیز تھی کہ عربوں کے لیے سامراجی چالوں کا سمجھنا آسان نہیں تھا ، پھر سامراج نے سلاطین اور شیوخ کے مہرے تلاش کئے اور سیاست کی بازی کھیلی ، یوں عالم ِ عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد عربوں کے جداگانہ اور آزاد تشخص کے بروئے کار آنے میں جو رخنے پیدا کئے گئے ، عرب آج تک ان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکے اور غیر عرب مسلمان بالعموم یہ نہیں سمجھ سکے کہ استعمار نے عربوں سے کیا کیا ۔

عالم عرب میں جگہ جگہ تیل کے چشمے دریافت ہوئے تو یہ علاقے افسانوی حد تک دولت آفریں ہوگئے ۔ دولت کے دودھ کی ان بہتی نہروں کی بالائی استعماری ممالک لے جانے لگے ، وہی تیل نکالتے اور عالمی منڈیوں میں بیچتے ۔ اس طرح انہوں نے نہ محض خود بے تحاشا دولت کمائی بلکہ عربی زندگی پر چھا گئے۔ اس خداد داد اور روز افزوں دولت سے عامتہ الناس کو کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں پہنچا ۔ اس سے عربوں کا ایک عجیب تصور بنادیا گیا جو عرب کا کردار نہ تھا اور نہ ہوسکتا تھا لیکن استعمار اور استحصال کی کرشمہ سازی کے سبب عربوں کے خلاف جو تعصب غیروں کیا اپنوں میں پیدا کیا گیا ، اس کے باعث دونوں قوتوں یعنی استعمار اور استحصال نے عربوں کو اپنے آپ میںآنے نہیں دیا ۔یہ عمل آج بھی جاری ہے کہ عربوں کی ہر بات میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تقاضائے استعمار یہی ہے کہ عربوں کو غلط رنگ میں پیش کیا جائے تاکہ ان کے متعلق غلط فہمیاں پھیلا کر ا ن کی رفتار ِ کار کو سست کیا جائے ۔ اسرائیل نے فلسطینی مجاہدوں کو قابل اعتنا نہں سمجھنا چاہا تھا لیکن اب ان کی تلاش میں وہ کبھی کسی عرب ملک کو کاٹتا ہے تو کسی کی چاپلوسی ، اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کوئی بھی شرمناک حرکت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا ۔ اب فلسطینی مجاہدین کو استعمار اور استحصال کے خلاف نبرو آزما ہونے کا غیر معمولی تجربہ ہے، تیسری نسل اب کسی سے امیدیں باندھنے کے بجائے عوامی اور انقلابی قیادت کا اجالا ، ہماری آنکھوں کے سامنے جلد پھوٹتا دکھانا چاہتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button