ColumnNasir Naqvi

دھمکیاں کیوں؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

سیاست میں بنیاد تو رواداری اور برداشت کی ہمیشہ سے قرار دی جاتی ہے لیکن دنیا بھر کے سیاست دان دھمکیاں دینے سے کبھی بھی گریز نہیں کرتے حالانکہ سب اس راز سے واقف ہیں کہ دھمکیوں سے سیاست نہیں چلتی لیکن پھر بھی زور آزمائی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں دھمکی کا سب سے بڑا اعلان ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے لاہور کے تاریخی جلسہ عام میں اپنے دوست اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے پلیٹ فارم سے یہ کیا تھا کہ ’’تم قومی مجرم ہو…تمہیں کوہالہ کے پل پر پھانسی دیں گے‘‘۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ آمر صدر ضیاء الحق نے انہیں پھانسی چڑھا دیا۔ پاکستانی قوم ہی نہیں، دنیا حیران پریشان ہو گئی کہ یہ کیا ہوا؟ اور ایئر مارشل(ر) اصغر خان نے فوری وضاحت کرنا اپنا فرض سمجھا اور یہ برملا کہا کہ میر ا مقصد’’ بھٹو‘‘ کو پھانسی دلوانا ہرگز نہیں تھا میں نے جوشِ جذبات میں ایک نعرہ لگایا تھا کہ اپوزیشن کے حلقوں میں نئی زندگی پیدا ہوجائے اور نئی روح پھونکی بھی گئی۔ اپوزیشن جماعتیں ’’متحدہ قومی اتحاد‘‘کی تحریک ’’نظامِ مصطفی‘‘ کے نام پر خوب چلی اور پھر قوم کو صدر ضیاء الحق کی شکل میں ایسا نظامِ مصطفی مل گیا جس سے آج تک پوری قوم کو شکوہ ہے۔ مذہبی منافرت اور دہشت گردی نے سر اٹھایا اور پھر اسی دہشت گردی کی فضاء میں صدر ضیاء الحق اپنی پاک فورس کے اعلیٰ ترین افسران کے ساتھ ایک ایسے سانحے کی صورت میں دنیا سے رخصت ہو گئے، ان کے منہ بولے ’’نواز شریف‘‘ اور صاحبزادے اعجاز الحق اقتدار میں بھی ایک سے زیادہ مرتبہ آئے لیکن کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ بین الاقوامی سازش کیوں کی گئی اور حقائق کیا ہیں؟

بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی اقتدار کے باوجود اپنے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر بعد از مرگ ٹرائل نہ کرا سکی اور نہ ہی اس نے بے نظیر شہید کے مقدمے کو آگے بڑھا کر قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی حالانکہ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے والے لارجر بینچ کے رکن جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ مرنے سے پہلے اپنی غلطی کا احساس کر کے پھانسی کو غلط کہہ گئے۔ اسی طرح ایئر مارشل (ر)اصغر خان بھی مرتے دم تک وضاحتیں کرتے نہیں تھکے کہ ان کے ’’نعرہ ٔ مستانہ‘‘ کا مطلب بھٹو کی پھانسی نہیں تھی۔ بھٹو صاحب اور بے نظیرصاحبہ کے قتل کی وجوہات ڈھونڈی جائیں تو دھمکیاں واضح انداز میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ امریکی ہنری کسنجر کی دھمکی تاریخ میں موجود ہے کہ جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت ناک انجام کی دھمکی دی تھی بالکل اسی طرح دوران سماعت بھٹو صاحب گرجے اور برسے وہ بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی ہی تھی اسی دبائو میں صدر ضیاء الحق نے یہ بات تسلیم کی تھی کہ ’’قبر ایک ہے اور بندے دو‘‘ ۔ خوف لاحق تھا کہ اگر بھٹو صاحب کا نصیب قبر نہ بنایا جا سکا تو قبر کا مکین انہیں بننا پڑے گا انہیں کیا معلوم تھا کہ بھٹو پھانسی چڑھ کے بھی زندہ رہے گا۔میں اور آپ اس بات سے اختلاف کریں لیکن پیپلز پارٹی اور اس کے جیالے تو سیاست ہی اس بات پر کر رہے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے پھر بھی ڈھونڈ رہی ہے عوام۔ روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ زبردستی کے صدر پرویز مشرف نے بھی بے نظیر بھٹو کو دھمکی آمیز اطلاع دی تھی کہ اگر وہ ملک واپس آئیں تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ پھر ان کی واپسی پرکارساز دھماکے کراچی سے یہ دھمکی دی گئی تھی کہ باز نہ آئیں تو ایسا ہی حادثہ ہو سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو عوامی جدوجہد اور اپنے والد کی طرح طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتی تھیں اس لیے وہ صدر پرویز مشرف کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائیں لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بے نظیر بھٹو بے جرم خطا عوامی اجتماع میں ماری گئیں اور سیاست سیاست اسی طرح کھیلی جا رہی ہے یقیناً دھمکیوں کا یہ معمولی سا جائزہ ہے۔ اگر اقتدار کی جنگ میں تاریخی حوالوں سے دھمکیوں کا جائزہ لیا جائے تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں یعنی اس کالم میں تفصیلات کی مزید گنجائش نہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں کو سیاسی انداز میں پرکھیں تو ہر دور میں حکومتی دھمکیاں تو ملیں گی لیکن سب سے
زیادہ دھمکیاں ریاست مدینہ کے دعوے دار خان اعظم نے دیں۔ کنٹینر سے زبان کھلی، پھر اقتدار اور اقتدار کے دور کے بعد بھی بند نہیں ہو سکی۔ تحریک انصاف دھمکیوں کے معاملے میں خودکفیل رہی کیونکہ ان کے کپتان نے خواہش توسیدھے راستے اور خوشنودی اللہ تعالیٰ کی کی، لیکن بیانیہ ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘ اپنایا۔ دورِ اقتدار سے پہلے جتنی دھمکیاں دیں اس حوالے سے روز اوّل سے ہی پکڑ، دھکڑ اور جکڑ کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنے اردگرد نادان دوستوں کو جارحانہ کھیلنے اور بے خطر سیاسی لڑائی لڑنے کا مشورہ دیا۔ انہیں یاد دہانی کرائی کہ میں نے اسی پالیسی پر کرکٹ میں کامیابیاں حاصل کیں، عمران خان اپنے پس پردہ سرپرستوں کی حوصلہ افزائی پر اس قدر مطمئن تھے کہ ان کے سامنے کسی کو بولنے کی جرأت نہیں تھی۔ کسی نے انہیں نہیں سمجھایا کہ ایمپائر نے انگلی نہ اٹھائی تو ڈاکٹر طاہر القادری جیسے کزن بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔طویل دھرنا دیا گیا۔ مختلف دھمکیوں کے ساتھ سول نافرمانی کی دھمکی بھی منظر عام پر آگئی لیکن جب کپتان نے دھمکیوں کا سلسلہ نہیں چھوڑا تو ایمپائرز نے مداخلت کی، طلب کیا اور اپنی زبان میں سمجھا دیا کہ اپنی لڑائی خود لڑو، ایمپائرز ہمیشہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ معاملہ سست روی کا شکار ہوا تو کزن طاہر القادری جوش میں آ گئے انہوں نے مرنے کی دھمکی دی، قبریں کھودی گئیں، کفن باندھے گئے لیکن جان نثار روتے رہ گئے اور سب کچھ ملتوی کر دیا گیا جب سے اب تک جانثار اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر قربان ہونے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن انتظار کی گھڑیاں ختم نہیں ہو رہیں اس لیے کہ یہ طویل ہوتی ہیں۔ خان اعظم کو ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے کے بعد یاد آ گیا کہ کزن تو سانحۂ ماڈل ٹائون میںبھی دکھ برداشت کر چکے ہیں کیوں نہ ان کے دکھوں کا ازالہ کیا جائے۔ انہوں نے اپنے اتحادی وزیر اعلیٰ سے سانحہ ماڈل ٹائون کو جگانے، زندہ کرنے اور ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا حکم صادر فرما دیا ہے۔ نیک اور وفادار چودھری پرویز الٰہی نے ردعمل میں وفاقی وزیر داخلہ ثناء اللہ کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کی دھمکی دے دی ہے بلکہ کپتان کو ان کی زبان میں سمجھا دیا ہے کہ ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘ ، کل کیا ہوتا ہے کوئی نہیں جانتا؟

سیاست میں دھمکیوں کا تذکرہ آئے اور شہزاد اکبر و شہباز گِل کی بات نہ کی جائے تو یقیناً یہ ناانصافی ہو گی۔ شہزاد اکبر صاحب غیر منتخب ہونے کے باوجود وزراء سے زیادہ طاقت ور تھے ۔ انہوں نے ماضی کے چور لٹیرے رہنمائوں سے دو دو نہیں، چار چار ہاتھ کرنے کی دھمکی دی، میڈیا نے ان کی دستاویزات سے بھری لمبی لمبی پریس کانفرنسیں برداشت کیں، وزراء بھی انہیں کپتان کے کارِ خاص کی حیثیت سے فوقیت دیتے رہے لیکن سب نے دیکھا کہ ایک خاص بیانئے اور ملکی و غیر ملکی دعوئوں کے باوجود وہ کچھ نہیں کر سکے اور جو نہی بُرا وقت آتا محسوس کیا، اُڑان بھر گئے ۔ اب وہ ملک میں نہیں لیکن موجودہ سمجھدار حکومت نے اپنے نادان دوستوں کے مشورے پر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ کیسا حسین مذاق ہے؟موجودہ دور کے سب سے بڑے دھمکی باز خان اعظم ہی سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی فیکٹری بنی گالہ میں بننے والا جاں باز شہباز گِل آگے نکلنے میںکچھ زیادہ ہی بازی لے گیا۔ وہ پہلے پہل امریکہ سے درآمد وسیم اکرم پلس منفرد ترین وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی مدد کے لیے گئے تھے لیکن آپ اور ہم ہی نہیں، پورا پنجاب جانتا ہے کہ گفتار کے غازی اور دھمکیوں کے بادشاہ زیادہ عرصہ معصوم اور کم گو وزیراعلیٰ کے ساتھ نہیں چل سکے لہٰذا انہوں نے اپنے قائد عمران خان کو ان کا تحفہ واپس کر دیا۔ عمران کی سرپرستی میں شہباز گِل نے روزانہ کی بنیاد پر لفظی جنگ چھیڑی اور دھمکیوں کے میزائل چلائے بلکہ ان کا ہتھیار ’’رندہ‘‘ بڑا مشہور ہوا۔ وہ اپنے مخالفین کو بات بات پر ’’رندہ‘‘ پھیرتے رہے۔ ہر سطح پر دھمکیاں دیتے رہے ، یہاں تک کہ انہوں نے آئی جی پنجاب کو چیلنج دیا کہ اگر تم مر گئے تو تمہاری قبر پر پریس کانفرنس کر کے لوگوں کو تمہارے کرتوت بتائوںگا۔ یہ بات اچھی نہیں لگی، خاصے تنقید کا نشانہ بنے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ زبان لمبی ہوتی گئی۔ سیاستدانوں بلکہ ہسپتا ل جانے والوں کا تمسخر اڑاتے رہے۔ پنجابی کی مثال ہے ’’ات خدا دا ویر‘‘ ، اردو میں اس صورت حال کو مکافاتِ عمل کہا جاتا ہے۔ وقت نے کروٹ لی اور زبان سے نکلا ہر لفظ کی قیمت چکانی پڑ گئی۔ اس وقت شہباز گِل اپنے کئے میں پھنسے ہیں۔ دونوں جانب سے ان کی صحت اور ان پر کیے گئے تشدد کے سلسلے میں افواہیں اور خبریں سوشل میڈیا اور اخبارات میں عام ہیں، کنفرم کسی کو نہیں کہ حقیقی صورت حال کیا ہے؟ شہباز گِل نے ابتدائی تحقیقات میں جو کچھ کہا اس پر قائم ہیں کہ ’’یوٹرن‘‘ لے چکے ہیں۔ چند دنوں کی تاخیر سے کپتان کواپنے چیف آف سٹاف کی فکر لاحق ہوئی، ایک فوج ظفر موج کے ساتھ پمز پہنچ گئے۔پھر بھی کسی نے گھاس نہیں ڈالی، ردعمل میں آئی جی، ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کو دھمکی دے دی ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ پھرخیال آیا ہو گا اب تو اقتدار کی طاقت نہیں، لہٰذا کیس کرنے کی دھمکی دے دی، یہ بھی کہہ دیا کہ مخالفین الٹا بھی لٹک جائیں انہیں نااہل نہیں کر سکتے، حالانکہ عام تاثر یہی ہے کہ چراغ بجھنے سے پہلے روایتی انداز میں پھڑپھڑا رہا ہے۔ وہ فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ میں نااہل ہونے جا رہے ہیں، تاہم فیصلہ ان کے خلاف بھی آ جائے پھر بھی اپیلوں کا حق انہیں حاصل ہو گا۔ بات بڑھے تو سپریم کورٹ تک جائے گی لہٰذا عمران خاں کے بیانات کو پیمرا نے انتہائی سنجیدہ لے کر ان کی اس خوبی پر کہ وہ قومی اداروں کو نشانہ بنانے سے باز آنے کی بجائے نام لے لے کر دھمکیاں دینے کی روش نہیں چھوڑ رہے۔ ان کی لائیو تقاریر دکھانے پرپابندی لگا دی ہے کیونکہ ان کی غیر ذمہ داری سے نقص امن کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کو دھمکیاں دینے کے بعد پولیس نے عمران خاں کی سکیورٹی ڈیوٹی سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پولیس سربراہ کے خلاف نازیبا بیان بازی قبول نہیں۔ اب سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کا حقیقی ایجنڈا کیا ہے؟ ان کا ٹارگٹ کیا ہے؟ سیاستدان میں ہمیشہ لچک ہوتی ہے۔ کیونکہ حالات و واقعات میں معاملات بدلتے ہیں۔ پھر بھی تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان بوکھلاہٹ میں دھمکیاں دے کر داد حاصل کرنے کی خواہش میں بھول گئے کہ دھمکیاں نہیں دی جاتیں اگر سیاست کرنی ہو؟ لیکن کوئی اُن سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتا کہ دھمکیاں کیوں؟

جواب دیں

Back to top button