
جبار چودھری
ہرطرف ہی یہ تاثرہے اور تاثر بھی بہت گہرا کہ نون لیگ کی حکومت ہی دور اقتدار میں مشکل فیصلوں کی وجہ س پارٹی کو نگلے جارہی ہےحالانکہ اقتدارمیں آکر سیاسی پارٹیاں پھلتی پھولتی ہیں۔ اچھے کام کرکے عوام سے دادطلب کرتی ہیں لیکن یہ ایسا موقع ہے کہ پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی آدھی جماعت کو اپوزیشن والا کردارنبھانا پڑرہا ہے۔ مسئلہ نون یا شین کا ہے ۔وزیراعظم بننے کی خواہش یااقتدارمیں رہنے کا لالچ ہے یاواقعی پاکستان کو بچانے کے لیے اپنی سیاست کونقصان پہنچانے کا رسک ہے یہ سوالات جواب طلب ضرور ہیں لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے موقع پر مریم نوازکا ٹویٹ بہت کچھ کہہ گیا ہے۔ شہباز حکومت کے مشکل فیصلوں اور بڑھتی مہنگائی کا خمیازہ تو نون لیگ نے بھگتنا ہے اور یہ طے ہے کیونکہ مہنگائی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا کسی بھی سطح پر کوئی دفاع ممکن ہی نہیں ۔
عمران خان نہ مہنگائی کو قابوکرسکے اورنہ ہی کسی نے ان کا دفاع قبول کیا۔وجہ توسادہ سی ہے کہ پاکستان میں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں اور یہاں کسی کی بھی حکومت بنے وسائل اور مسائل کا تناسب بدلنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔لیکن یہ سادہ سی بات عوام بالکل نہیں سمجھنا چاہتی ۔عوام کہتی ہے اور ٹھیک کہتی ہے کہ آپ کو ہم نے حکمران بنادیا ہے اب جائیں اور ہمارے لیے کچھ آسانیوں کا بندوبست کریں۔وہ آسانیاں اس وقت شہباز حکومت پیدا کرنے میں ناکام ہے اس لیے شیر اورنون لیگ عوام کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اوراگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو نون لیگ خسارے میں جاتی رہے گی۔
صورت حال کو مزیدسادہ کرنے کے لیے ہم چھ ماہ پہلے چلتے ہیں۔ یہ عمران خان کا دور تھا لوگ مہنگائی سے تنگ تھے اوران کی اپنی حکومت کے دوران وہ ایک ضمنی الیکشن جیتنے کو ترس رہے تھے۔ پنجاب ہو یا خیبرپختونخوا کسی بھی جگہ ضمنی الیکشن میں کامیابی ہی نہیں مل رہی تھی ۔ایک ڈسکہ میں جیتنے کی کوشش کی تو دھاندلی کا ایک کارنامہ سامنے آیا کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کی ہی دشمن بن گئی۔پی ٹی آئی کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ آئندہ الیکشن جیتنا تو دور کوئی ٹکٹ کی حامی بھرنے کو تیارنہیں تھا۔ آپ کویاد ہوگا کہ مریم نوازجلسوں میں کہا کرتی تھیں کہ یہ مسلم لیگ نون کا ٹکٹ چلنے کا دورہے۔جیتنے والے گھوڑے نون لیگ کے ٹکٹ کی بکنگ کروارہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ پی ٹی آئی دوبارہ بیس تیس نشستوں تک سمٹ جائے گی اورپرفارمنس یہی رہی تو خیبر پختونخوا کی حکومت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی۔
عمران خان کی حکومت اپنے بوجھ سے گررہی تھی کہ عمران خان کو خود بخود گرنے دیے جانے کے برعکس جلد بازوں نے عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت گراکر ان کی ساری بری کارکردگی کو کندھا فراہم کردیا۔اس وقت نون لیگ کا وہی حال ہے جو چھ ماہ پہلے پی ٹی آئی تھا اور پی ٹی آئی کی وہ شان ہے جو چھ ماہ پہلے نون لیگ کی تھی۔اس وقت عمران خان مقبول اور نون لیگ غیر مقبول ہے۔لوگ عمران خان کی مہنگائی بھول چکے انہیں اب نون لیگ کی مہنگائی یاد ہے۔
غورسے دیکھا جائے تو اس وقت نون لیگ میں موجود شہبازگروپ کی حکومت ہے۔مریم نواز کے قریب سمجھے جانے والے تمام افراد کھڈے لائن لگادیے گئے ہیں ۔ کچھ ایسے ہیں جن کو وزیرتو بنایا گیا ہے لیکن وزارت کوئی نہیں دی گئی۔اس کی مثال میاں جاوید لطیف ہیں ۔ اس کے علاوہ باقی مریم گروپ کو تو حکومت کے قریب بھی نہیں آنے دیا گیا۔شہبازشریف صاحب جو اس وقت تاریخی کابینہ تشکیل دیے بیٹھے ہیں بلکہ حال یہ ہوگیا ہے کہ وزیرزیادہ اور وزارتیں کم پڑگئی ہیں۔معاون خصوصی تھوک کے حساب سے تعینات کیے جاتے ہیں مگر حیرت ہے ان کوپرویز رشید نظر نہیں آتے۔وہ طلال چودھری کو مسلسل نظر اندازکیے ہوئے ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ طلال چودھری کو شاید ٹکٹ بھی نہ دینے کا منصوبہ ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے منحرف رکن قومی اسمبلی نواب شیر وسیر کو اس شرط پر منحرف کروایا گیا کہ انہیں اگلے الیکشن میں طلال چودھری کی جگہ جڑانوالہ سے ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔کراچی سے نہال ہاشمی کو بھی کسی خاطر میں نہیں لایا گیا اور تواور مریم نوازاور میاں نوازشریف کے ترجمان محمد زبیر عمرکوبھی کسی حکومتی عہدے کے قریب نہیں آنے دیا گیا جبکہ دوسری طرف شہبازگروپ کا کوئی رکن بھی حکومتی عہدے سے محروم نہیں رہا۔
ان حالات میں میاں نوازشریف اور مریم نوازکا اس حکومت سے فاصلہ رکھنا سمجھ میں آتاہے لیکن یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کیا میاں نوازشریف کی پارٹی پر گرفت کمزورپڑرہی ہے یا یہ سب کچھ جان بوجھ کر کسی حکمت عملی کے طورپر کیا جارہا ہے۔ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ نوازشریف تو عدم اعتماد کے ہی خلاف تھے لیکن عدم اعتمادآئی بھی اور کامیاب بھی ہوگئی۔دوسری طرف کہا جارہا ہے کہ نوازشریف عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن کے حق میں تھے اور حکومت کرنے کے مخالف تھے لیکن حکومت لی اور الیکشن بھی نہیں ہوئے۔اب پٹرول کی قیمت بڑھی تو کہا گیا کہ میاں صاحب میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے وہ قیمت بڑھانے کے حق میں نہیں تھے ۔سوال تو ہے کہ کیا شہبازشریف وہ فیصلے اپنی مرضی سے کیے جارہے ہیں جو میاں صاحب کو پسند نہیں ہیں؟
معاملہ کچھ بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ حکومت کی ناکامیوںکا بوجھ نون لیگ کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ حکومت جس قدر ناکام ہوگی نون لیگ اسی قدر کمزوراور غیر مقبول ہوتی چلی جائے گی۔نون لیگ کمزور ہوگی تو عمران خان مضبوط ہوں گے کیونکہ دونوں کا انتخابی میدان پنجاب ہے ۔نون لیگ کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی صورت میں بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔پچھلے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے جیت کر دھاک تو بٹھاہی دی ہے اب مزید ضمنی الیکشن پنجاب میں آرہے ہیں تو صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔
اب اس کا حل کیا ہے؟ حل تو کرنا پڑے گا کیونکہ شہبازشریف حکومت تو نہیں چھوڑیں گے۔ حل نمبر ایک یہ ہے کہ حکومت اس قدربہترپرفارم کرے کہ لوگوں کو نون لیگ کا پچھلا دوریاد آجائے توکامیابی ممکن۔دوسرا حل یہ کہ نوازشریف فوری واپس لوٹیں۔جیل جانا پڑے جائیں۔ ضمانت لیں یا جیل میں بیٹھیں۔پارٹی کا نیاطاقتوربیانیہ بنائیں لوگوں کو ان کی مشکلات میں ساتھ ہونے کا یقین دلائیں۔کیا نون لیگ یہ کرنے کوتیارہے؟اگر نہیں تو پھر اقتدارکی بھاری قیمت چکانا ان کا مقدرہوگا۔







