سماج سدھار فلم کا انتظار .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
ملک بھر میں بارشیں اورحبس کی لہر ہے۔ امریکہ و برطانیہ میں گرمی کی لہر نے جینا دوبھر کررکھا ہے، لندن اور لاہور میں تھوڑے سے فرق سے ایک منظر قابل دید ہے۔ لندن پل سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گرمی سے گھبراکر دریا میں چھلانگیں لگاتے، لاہور میں نہر کے پل سے مستی میں آئے نہر میں نہاتے نظر آتے ہیں۔ لندن ہم سے کچھ پیچھے رہ گیا، لاہور بہت آگے نکل گیا ہے، لاہور کو دوحصوں میں تقسیم کرتی نہر میں نوجوانوں کے ساتھ بزرگ اور ان کے ساتھ گھوڑے و بھینسیں بھی گرمی اتارے دیکھے گئے، لندن میں ایک نوجوان لڑکی نے گرمی کی شدت جانچنے کا انوکھا تجربہ کیا، وہ ایک بیکری میں گئی اور اپنے ناشتے کے لیے کچھ انڈے اور ڈبل روٹی خریدی، باہر نکلی تو گاڑی تنور بنی ہوئی تھی، اس نے سوچا گھر جاکر انڈا فرائی کرنے کی بجائے گاڑی کے بونٹ کو استعمال کیا جائے، خاتون کے مطابق بونٹ پر انڈا توڑ کر ڈالاگیا جو بیس منٹ میں فرائی ہوکر دو سلائس کے درمیان حائل ہونے کے لیے تیار ہوگیا، لندن اس معاملے میں مجھے پیچھے نظر آیا یہی کام ہمارے ملک میں پانچ منٹ میں ہوسکتا ہے، آپ زیادہ عجلت میں ہوں تو انڈا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے دو کارکنوں کے درمیان رکھ دیں، ان کی دو منٹ کی گفتگو کے بعد سامنے رکھا انڈاخودبخود فرائی ہوجائے گا، کسی شخص کے پاس دو منٹ نہ ہوں وہ ایک منٹ میں انڈا فرائی کرنا چاہتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے، اس کے لیے انہی دو سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے مابین ٹاک شو کے موقعہ پر انڈا ان کے سامنے میز پر رکھ دیں، ٹاک شو میں گفتگو شروع ہونے کے ٹھیک ایک منٹ بعد انڈا فرائی ہوجائے گا۔ تیس سیکنڈ میں انڈا فرائی کرنے کا آرٹ ایک سابق وزیراعظم کے پاس ہے۔ انڈا ان کے ہاتھ میں پکڑا دیں اور انہیں تین سابق وزرائے اعظم کی تصویروں والا پوسٹر دکھادیں یہ تصویریں دیکھنے سے اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ انڈا فرائی ہوجائے گا۔ پندرہ سیکنڈ میں انڈا فرائی کرنے کے لیے انڈے کو ان کے دماغ کے عین اوپر ان کی وگ میںرکھ دیں، یوں انڈا فٹافٹ فرائی ہوجائے گا۔ عوام الناس قوم کو برس ہا برس تک بے وقوف بنانے والے سیاست دانوں پر انڈے برسائیں گے جسے عین ممکن ہے وہ اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھیں کیونکہ انڈے کم ازکم ایک سو اسی روپے درجن ہیں، گویا ایک انڈا پندرہ روپے میں پڑتا ہے۔ خوشی کے موقع پر نوٹ لٹانے کے لیے کم ازکم دس روپے کا کرنسی نوٹ دستیاب ہوتا ہے،آپ اسے چھوٹا نوٹ یا چھوٹی ترین پرچی کہہ سکتے ہیں یوں پندرہ روپے کا انڈا خوشی کا نسبتاً مہنگا اظہار ہوگا،
اس بات کا قوی امکان ہے کہ پھینکے جانے والے ان انڈوں میں اچھے انڈوں کے ساتھ خراب انڈے بھی ہوں گے مگر پھر بھی خراب انڈا دس روپے کی پرچی سے زیادہ مہنگا ہوگا، عام حالات میں گندے انڈے نسبتاً سستے مل جاتے ہیں کیونکہ انہیں بعض دو نمبر بیکریاں کیک اور بسکٹ بنانے میں استعمال کرتی ہیں۔ عام انتخابات کے اعلان کے بعد ان کی کھپت میں اضافے کے سبب ان کی قیمت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ انڈوں کے کاروبار سے متعلق کاروباری حضرات سے انڈوں کی قیمت میں اضافے کا سبب پوچھو تو ان کے پاس اس کا گھڑا گھڑایا جواب ہر لمحہ موجود ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں جناب ڈالر اور پٹرول مہنگے ہوگئے ہیں، اس لیے انڈوں کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے، اگر ان سے پوچھا جائے کہ مرغیاں ڈالر سونگھ کر یا پٹرول پی کر انڈے دیتی ہیں تو ان کے پاس اس سوال کے ایک سو جواب موجود ہوتے ہیں جنہیں سن کر آپ یقیناً مطمئن نہیں ہوں گے۔ کسٹمر کا چیز خرید کر مطمئن نہ ہونا کاروبار کی کامیابی کے لیے انتہائی ضروری سمجھاجاتا ہے اور کامیاب بزنس مین اس بات کا خصوصاً اہتمام کرتے ہیں کہ آپ بار بار سر منڈوانے کے لیے ان ہی کے پاس آئیں اور خریداری کریں، خریداروں کو مطمئن کرنے کے لیے فی میل سٹاف کی بھرمار آپ کو ہر سٹور کے ہر کائونٹر پر نظر آئے گی جہاں ان کی ایک مسکراہٹ آپ کے ہر طرح کے خلجان ذہن کے لیے امرت کا کام کرے گی، عجیب بات ہے خاتون ہر ایک کو مسکرا کر دیکھے تو خوش اخلاق سمجھی جاتی ہے، مرد ہر کسی کو مسکرا کر دیکھے تو پاگل اور اگر کسی نوجوان لڑکی کو مسکراکر دیکھے تو بدمعاش سمجھا جاتا ہے، اب ایسے بدمعاش لڑکے کی شکایت کے لیے پولیس کی مدد حاصل نہیں کی جاتی، یہ بہت پرانا فیشن ہے کم پڑھے لکھے ابھی تک اسی فیشن سے چمٹے ہوئے ہیں ،ماڈرن ترقی یافتہ پڑھے لکھے لوگ اورخصوصاً لڑکیاں مسکراکر دیکھنے والے بدمعاش کو پولیس کے حوالے کرکے اپنا نقصان نہیں کرتیں وہ خوب جانتی ہیں کہ پولیس وائے اسے تھانے لے جاکر ایک اہم کال کے بعد رشوت لیکر چھوڑ دیں گے، یا مزید اپنی آمدن میں اضافے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے شکایت کنندہ کو پہلے صلح کرنے پر مجبور کریں گے پھر صلح کرانے کی فیس وصول کریں گے، یہ نقصان کا سودا سمجھا جاتا ہے،
سمجھدار لڑکیاں اب مسکراکر دیکھنے والے بدمعاش کی جوتی سے ٹھکائی کرتی ہیں اور اپنے ساتھی سے اس خوبصورت منظر کی ویڈیو بنانے کا کہتی ہیں پھر اس کلپ کو اپنے یوٹیوب چینل پر ڈال دیا جاتا ہے، یوٹیوب چینل تو اب ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی نے بنارکھا ہے، چھترول کلپ جتنا زیادہ زیادہ وائرل ہوتا ہے اتنی زیادہ آمدن ہوتی ہے، اس ایکٹنگ کے دوران اگر فریقین ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دیں تو فلم مزید کامیاب ہوجاتی ہے، مزید برآں تار تار لباس کے اُس پار اگر کوئی جھلک نظر آجائے تو فلم سپرہٹ ہوجاتی ہے اس قسم کی فلموں میں اخراجات زیادہ نہیں آتے، تھوڑی سی ہینگ اور پھٹکری لگنے سے رنگ چوکھا آجاتا ہے، عمومی طور پر فلم کی ہیروئن ہی اس کی رائٹر، ڈائریکٹر و پروڈیوسر ہوتی ہے، کام پارٹنر شپ میں چل رہا ہو تو ہیروئن کا کوئی عزیز یا بوائے فرینڈ کچھ ذمہ داریاں سنبھال لیتا ہے لیکن فلم میں مرکزی حیثیت، کردار، خاتون یعنی ہیروئن کا ہی ہوتا ہے، بال جتنے زیادہ بکھریں گے، گریبان جتنا زیادہ چاک ہوگا، گل اتنے ہی زیادہ کھلیں گے اور اہل جنوں اتنے ہی زیادہ بلکہ حد سے زیادہ بے باک ہوجائیں گے، گزشتہ برس مینار پاکستان پر بنائی گئی ایسی ہی ایک فلم بے حد مقبول ہوئی اسے دنیا بھر میں خصوص ذوق و شوق سے دیکھا گیا، فلم کی ہیروئن اور اس کے بوائے فرینڈ پارٹنر نے اس فلم کو اپنے یوٹیوب چینل پر ڈال کر محتاط اندازے کے مطابق اگلے پچھلے تمام کاروباری ریکارڈ توڑ ڈالے، ایک منصوبے کے تحت فلم کی ہیروئن نے اپنے آپ کو ننگا کرکے دولت کمائی جبکہ پاکستان کے حصے میں اس سے چار گنا زیادہ ذلالت آئی، خبر آئی تھی کہ راز فاش ہونے کے بعد دونوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا، تفتیش ہوئی، تحقیق ہوئی، جرم ثابت بھی ہوگیاپھر اچانک دونوں مجرموں کو انتہائی سستا اور فوری انصاف گھر کی دہلیز پرمل گیا، یہ انصاف دلانے میں ہمارے ایک سابق وزیراعظم اور ان کے رفقائے کار نے اہم کردار اداکیا۔ انہی سابق وزیراعظم نے قوم کو اعتماد میںلیتے ہوئے خود ہی انکشاف کیا تھا کہ ان کی بھی کچھ ویڈیوز آنے والی ہیں جو ان کے مخالفین نے تیارکرائی ہیں، عرصہ دراز سے ان ویڈیوز کا بے چینی سے انتظار کیا جارہا ہے، ماہرین کا اندازہ ہے یہ فلم ہالی ووڈ کی فلموں سے زیادہ بزنس کرے گی، اس سے پاکستانی قوم اور سماج کو سدھارنے میں بہت مدد ملے گی۔







