قبل از سیلاب کیلئے انتظامات ۔۔ روشن لال

روشن لعل
مون سون 2022 کے دوران بارشوں کی وجہ سے ہونیوالی تباہ کاریاںگلگت بلتستان سے کراچی تک پھیلی نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں بارش چاہے اسلام آباد ، کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں برسے یابلوچستان کے کسی پسماندہ علاقے میں ،نتیجہ نظام زندگی کے بری طرح متاثر ہونے کی صورت میں ہی برآمد ہوتا ہے۔ بارش جب سطح سمندر کے عین برابر کراچی میں برسے تو شہر کے پوش علاقوں سے کچی آبادیوں تک سب کچھ ڈوبا ہوا نظر آتاہے اور بارش اگر سطح سمندر سے 507 میٹر بلند ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہو تو وہاںبھی چوراہے اورسڑکیںتالاب اورنہریں بن جاتے ہیں۔
پسماندہ علاقوںکی صورتحال اپنی جگہ بلکہ مذکورہ بڑے شہروں میں بھی بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں سمجھا جاتا۔ دونوں شہروں میں بارشوں کے بعد ظاہر ہونے والی صورتحال کا فرق صرف یہ ہے کہ سطح سمندر سے بہت زیادہ بلندی پر واقع اسلام آباد میں بارش تھم جانے کے بعد پانی کا نکاس جلدممکن ہوجاتا ہے جبکہ کراچی کی سمندر سے اونچائی کا لیول صفر میٹر ہونے کے سبب وہاں جمع ہونے والا پانی مشینوں کے ذریعے نکالنا پڑتا ہے۔ حالیہ بارشوں کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ جہاں بھی یہ شدت سے برسی ہیں وہاں نہ صرف لوگوں کا جانی و مالی نقصان ہوا بلکہ سڑکوں اور پلوں جیسا مفاد عامہ سے وابستہ تعمیراتی ڈھانچہ بھی بری طرح تباہی کا شکار ہواہے۔ان بارشوںکے دوران اگر بلوچستان، سندھ، پنجاب ،
کے پی کے ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرکے دورافتادہ علاقوں میں خط غربت سے بہت زیادہ نیچے موجود لوگوں کے کچے مکان بہہ گئے تو بڑے شہروں میں بسنے والے آسودہ لوگوں کے مکان صرف پختہ ہونے کی وجہ سے پانی کی زد میں آنے کے باوجود محفوظ رہے۔ بات کرنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ وطن عزیز میں بارش کے پانی کے نکاس کا نظام اگر پسماندہ علاقوں میں ناقص ترین ہے تو بڑے بڑے شہروں میں بھی انتہائی غیر معیاری ہے۔
بارشوں کے دوران ہونے والے جانی نقصان کی بات کی جائے تو 5 اگست تک پورے پاکستان میں 552 قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ مرنے والوں میں بلوچستان کے 170 ، سندھ کے 122 ، پنجاب کے 119 ، خیبر پختونخوا کے 105 ، آزاد کشمیر کے27 ، گلگت بلتستان کے 8 اور اسلام آباد کا ایک شہری شامل ہے۔ ان ہلاکتوں کے علاوہ پورے ملک میں اب تک 628 لوگوں کے معمولی سے شدید زخمی ہونے کی اطلاع بھی ہے۔ جہاں تک انفراسٹرکچر کی تباہی کا تعلق ہے تو پورے ملک میں 2445 کلومیٹر سڑکیں، 118 پل ، 42 دکانیں اور 47028 گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ مویشیوں کی بات کی جائے تو ملک بھر میں ان کی اب تک ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 24889ہے۔ واضح رہے کہ انسانوں یا مویشیوں کی ہلاکتوں اور تعمیراتی ڈھانچے کی تباہی وغیرہ سے متعلق یہ اعداد وشمار نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پاکستان کے جاری کردہ ہیں۔ ان اعدادوشمار میں غور طلب بات یہ ہے کہ5 اگست کو جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پورے ملک میں تباہ ہونیوالی کل2445 کلومیٹر لمبی سڑکوں میں سے صرف صوبہ سندھ میں 2002 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئی ہیں۔ این ڈی ایم اے کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر کیے گئے ترمیم و اضافے پر مبنی سڑکو ں کی تباہی کا یہ ڈیٹا اس لحاظ سے حیران کن ہے کہ اس کے مطابق ملک میں 4 اگست سے پہلے تباہ ہونیوالی سڑکوں کی لمبائی 2445 کلومیٹر تھی جس میں سے اسلام آباد ، پنجاب اور آزاد کشمیر میں صفر کلومیٹر، گلگت بلتستان میں 2 کلو میٹر ، کے پی کے میں 6 کلومیٹر،بلوچستان میں670 کلومیٹراور سندھ میں 1767کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئی تھیں۔ اس کے بعد این ڈی ایم اے کی طرف سے 5 اگست کو سڑکوں کی تباہی کا جو ڈیٹا جاری کیا گیا اس میں پورے ملک میں تباہ ہونیوالی سڑکوں کی کل لمبائی تو4 اگست کے ڈیٹا کی طرح 2445ہی رہنے دی گئی مگر سندھ کے متعلق یہ ظاہر کیا گیا کہ وہاں ایک دن میں مزید 235 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 4 اور 5 اگست کو سڑکوں کی کل تباہی کے ایک جیسے ڈیٹا کو جمع تفریق کی غلطی سمجھ کر نظر اندا زکیا جاسکتا تھا مگر یہاں حیران کن بات یہ ہے کہ جس دن سندھ میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 235 کلومیٹر سڑکوں کی تباہی ظاہر کی گئی اس دن یعنی 4 اگست کے لیے نہ تو محکمہ موسمیات نے اتنی بارش کی پیش گوئی کی تھی اور نہ صوبہ سندھ میں کسی بھی مقام پر اس قدر بارش ہوئی کہ اس سے 235 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو جائیں۔ سندھ میں کسی بھی قسم کی تباہ کن بارش کے بغیر ہی جس طرح ایک دن میں 235 کلومیٹر لمبی سڑکوں کی تباہی ظاہر کر دی گئی ہے اس سے پیدا ہوانے والے شکوک کو یہاں صرف اس احتیاط کے تحت بیان نہیں کیا جارہا کہ ہو سکتا ہے اس معاملے میں کوئی شک دور کرنے والی وضاحت سامنے آجائے ۔
سندھ میں سڑکوں کی مذکورہ تباہی پر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو ایک طرف رکھنے کے باوجود حالیہ بارشوں کے دوران ہونے والے جانی نقصان کو محو نظر کرنا ممکن نہیں۔ قیمتی انسانی جانوں کے زیاں پر ذہنوں میں یہ سوال ابھرنا بہت ضروری ہے کہ حالیہ بارشوں کے دوران اب تک جوانسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں کیا ان کے تحفظ کی کوئی صورت ہو سکتی تھی یا پھر بچائو ہر طرح سے ناممکن تھا۔ گوکہ انفراسڑکچر کا نقصان بھی کچھ کم تشویشناک نہیں مگر اس نقصان کوفراموش کر کے اگر صرف انسانی جانوں کے نقصان کی بات کی جائے توان کے متعلق پیدا ہونے والے ممکنہ سوال کا جواب یہ ہے کہ انسانی جانوں کو تحفظ فراہم کیا جانا عین ممکن تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ برسوں کی نسبت رواں سال معمول سے بہت زیادہ بارشیں ہوئی ہیں مگر ان غیر معمولی بارشوں کے باوجود بھی انسانی جانوں کا بچائو ممکن ہو سکتا تھا۔ جن علاقوں میں جولائی میں برسنے والی شدید بارشوں کی وجہ سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں وہاں معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی اپریل میں ہی کی جاچکی تھی۔ اس طرح کی بارشوں کابرسنا اگرچہ معمول نہیں مگر یہ بات کوئی راز نہیں کہ جب معمول سے زیادہ بارشیں برسیں تو کس قسم کے سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔قریباً دو ماہ قبل معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قبل از سیلاب تمام حفاظتی انتظامات کر لیے جاتے مگر افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ کیا گیا۔ شدید بارشوں کی زد میں موجود علاقے کے لوگوں کو نہ تو کسی ممکنہ خطرے کی قبل از وقت اطلاع کی گئی اور نہ ہی وہاں سے ان کے انخلا کا مناسب بندوبست کیا گیا ۔ سیلاب کی آفت کی زد میں موجود علاقوں کے لوگوں کا اگر مال مویشیوں سمیت وہاں سے بروقت انخلا کر لیا جاتا تو سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچائی جا سکتی تھیں۔







