ColumnKashif Bashir Khan

قوم یا کبوتر اڑانے والے .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

آج عید الاضحی ہے۔ کالم کے توسط سے قارئین کو دلی عید مبارک! عید مبارک کہتے ہوئے میرے  دل پر کوئی بھاری پتھر تو نہیں لیکن عوام کی حالت زار دیکھ کر دل پھٹ رہا ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے اب غریب نہیں ہیں بلکہ درمیانہ طبقہ  جنہیں ہم کبھی متوسط طبقہ کہا کرتے تھے، کی بڑی تعدادہے۔یہ عید پاکستانیوں پر ایسے ہی آئی ہے جیسے کسی جنگ زدہ ملک میں جنگ ختم ہونے کے بعد آتی ہے ،مجھے یقین ہے کہ آج قربانی کا گوشت بانٹنے والے کم اور لینے کے خواہشمند زیادہ ہوں گے،  کیونکہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور امیر کو امیر ترین کرنے کے نظام میں ایک جانب نمودونمائش اور دوسری جانب بھوک ہے، اسی لیے غربت اور بے بسی کا چلن عام ہے،جن کی استطاعت قربانی کرنے کی ہے انہیں دیکھ کر متاثرین ریاست میں احساس محرومی کا بڑھنا لازم ہے اور یہ احساس معاشروں کو تباہی کے آخری حصے تک پہنچا یا کرتا ہے۔ریاست میں وسائل کی وحشیانہ اور غیر منصفانہ تقسیم ہی برابری کے حقوق کو متاثر کرتے ہوئے ریاست کے اتحاد اور بھائی چارے کو تباہ وبرباد کر کے اس کے باشندوں میں نفرتیں پیدا کرتی ہے۔گو کہ عید الاضحی قربانی کا درس دیتی ہے۔مسلمانان عالم اپنی حلال کمائی سے سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں اور اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں عوام کا دو وقت کا کھانا ہی دشوار گزار بلکہ نا ممکن ہو چکا ہے اور دال ،سبزیوں سے لیکر گھی اور دوسری اشیاء صرف عوام کے لیے ناقابل خرید ہو چکی ہیں۔بس وعدے ہی وعدے ہیں اور پھر آئی ایم ایف نامی ادارے کی ڈکٹیشنوں کا رونا ہے، بیرونی اداروں کے احکامات مان کر حکمران طبقہ تو اپنے عوام کش دور اقتدار کو طوالت دیتے ہیں لیکن 22 کروڑ عوام کی اکثریت کے روز و شب مشکل ترین کر کے انہیں مہنگائی اور لاچارگی کے پاتال میں پھینکتے نظر آتے ہیں۔ملک میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور حکمرانوں کی لوٹ مار نے عوام کو بھی شاید ایک دوسرے سے بے حس کردیا ہے۔
آج میری زندگی کی ایسی عید ہے جس میں، میں پاکستان کے عوام کی قربانی سنت ابراہیمی سے پہلے ہی ہوتی دیکھ رہا ہوں۔مجھے اس معاشرتی بے حسی اور نمودو نمائش پر آج سے تین دہائیاں قبل کا ایک ڈرامہ یاد آگیا۔غالباً 1988 کے بات ہے،   میں طالب علم تھا۔پڑوسی ملک میں آفاقی شاعر مرزا اسد اللہ غالب پر ڈرامہ بنایا گیا تھا جس میں مشہور اداکار نصیر الدین شاہ نے مرزا غالب کا کردار ادا کیا
اور اس ڈرامے کی خوبی یہ تھی کہ جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ نے مرزا اسد اللہ غالب کی غزلیں بہترین میوزک اور نئی دھنوں کے ساتھ گا کر گویا انہیں دوبارہ سے زبان زد عام کر دیا تھا بالخصوص نوجوان نسل جو کلاسیکل میوزک میں مختلف سنگرز کا گایا غالب کے کلام سے دور تھے وہ بھی جگجیت اور چترا کی آوازوں اور دلکش دھنوں پر گائے کلام غالب کی وجہ سے اصل شاعری اور غالب کی شاعری کی طرف راغب ہوگئے تھے۔گویا جگجیت و چترا سنگھ کی شاندار گائیکی اور نصیرالدین شاہ ونینا گپتا کی بطور امراؤ جان اداکاری نے مرزا غالب کو گویا دنیا میں دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کا کلام تو آج بھی زندہ بلکہ توانا ہے اور ان کے بارے میں کہا اور لکھا جاتا ہے کہ ان کہ شاعری گویا اگلے دو تین سو سالوں کے لیے کہی گئی تھی۔اس ڈرامہ کے آغاز کا منظر جو مرزا غالب کی حقیقی زندگی پر فلمایا گیا تھا آج بھی یادوں میں تازہ ہے کہ مرزا غالب اپنے گھر سے باہر آتے ہیں تو انہیں ایک نوجوان ہاتھ میں کبوتر پکڑے دکھائی دیتا ہے۔مرزا غالب اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ’’لکے‘‘ہیں؟جس پر نوجوان جواب دیتا ہے کہ مرزا! لکھنؤ کے لکے کبوتر اب کہاں۔ مرزا غالب نے نوجوان سے پوچھا کہ کیوں کیا ہوا اب دہلی میں کبوتر نہیں اُڑتے؟ نوجوان نے جواب دیا کہ جب سے فرنگی آئے ہیں اب تو دہلی
میں خاک اڑتی ہے ۔نوجوان مرزا غالب کو کہتا ہے کہ مرزا آپ تو’’گلی قاسم‘‘سے باہر ہی نہیں نکلتے۔مرزا غالب اسے کہتے ہیں کہ اب میں باہر نکل کر کیا کروں۔اب تو بہادر شاہ ظفر کو فرنگیوں نے رنگون بدر کردیا اور شہزادوں کے سروں میں نیزے گھسا کر انہیں شاہی محل کے دروازوں پر روزانہ لٹکاتے ہیں۔نوجوان کبوتر سے کھیلتا ہوا مرزا غالب کو پھر کہتا ہے کہ مرزا فرنگی نے آپ کی پنشن تو بحال کر دی،آپ کو کیا فرق پڑتا ہےاور آپ کو بادشاہت سے کیا لینادینا اب؟ مرزا غالب نے  نوجوان کو جو جواب دیا وہ آج بھی پاکستان کے عوام پر پورا اترتا ہے۔مرزا غالب نے  نوجوان سے  کہا’’میاں مجھ سے شکوہ مت کرو،اگر تم کبوتر نہ اڑاتے رہتے تو آج ہم بھی قوم ہوتے اور فرنگی کبھی بھی ہمارے ملک پر قبضہ نہ کرتا۔قومیں بادشاہوںسے نہیں عوام سے بنتی ہیں۔ جائو تم اب بھی کبوتراڑاو۔
عوام کی بے حسی نے حکمرانوں کے گروہوں کو اتنا مضبوط کر دیاہے کہ آج حکمران امیر ترین اور عوام غریب ترین ہو چکے ہیں۔عوام پر حکومت کرنے والوں کو اگر عوام کا قوم بن کر اپنے حقوق نہ مانگنے کا ادراک ہی انہیں ملک و قوم کی تباہی اور لوٹ مار کی ہلہ شیری دیتی ہے۔پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور ہر دور میں عوام کو لوٹنے والے دو چار سال کے بعد پھر چوغہ بدل کر پھر عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں اور اپنے مالی مفادات کا گھن چکر وہاں سے ہی دوبارہ شروع کر دیتے ہیں جہاں سے وہ چھوڑ کرگئے ہوتے ہیں۔عوام’’کبوتر اڑانے‘‘ والے بن چکے اور حکمران فرنگی کی طرح شہزادوں کی لاشیں تو اب نہیں لٹکاتے کہ زمانہ بدل چکا اور فرنگی اس خطے سے جا کر بھی نہیں گیا۔اب کبوتر اڑانے کی جگہ اور بہت سے ایسے مشاغل فرنگی نے متعارف کروا دیئے ہیں جن کا استعمال وہ اپنے ممالک میں بیٹھ کرتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اس نے برصغیر پر قبضہ کرنا تھا تو وہ خود یہاں بیٹھ گیا لیکن اب زمانہ اور ہے اور وہ لاشیں کسی قلعہ پر نہیں لٹکاتے  بلکہ اس کے لیے اس نے اسی خطے کے کچھ گنے چنے افراد مقرر کر رکھے ہیں جو پاکستان کے حکمران بھی ہیں اور فرنگی کے تابعدار بھی۔جو سر اٹھانے والے عوام کی لاشیں لٹکاتے نہیں بلکہ انہیں معاش وسماجی بے انصافی، مہنگائی اور بھوک کے ذریعے بے جان کرتےہیں۔
آج عید الاضحی ہے، آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا قصہ لے بیٹھالیکن قارئین سچ بتائیں کہ کیا کبھی ایسی عید بھی آپ نے دیکھی کہ عوام کی بے بسی اس حد تک دکھائی دے۔یہ سچ ہے کہ قومیں عوام سے بنتی ہیں اور حکمران بھی قوم کے محتاج ہوتے ہیں لیکن قوم ہو تو۔افسوس تو یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کے حصول کے لیے قوم بننے کو تیار ہی نہیں اور حکمران ہمیں فرنگی کی طرح تقسیم کر کے ہمارے ہاتھوں سے کبوتر تو اڑا رہا ہے لیکن ہمیں قوم نہیں بننے دے رہا۔آج من حیث القوم ہمیں سوچناہوگا کہ پاکستان میں جب ہر شخص تنہا ہو چکا ہے اور اس کا جینا مرنا برابر ہو چکا ہے، ہم نے اب بھی قوم بننا ہے یاکبوتر ہی اڑانے  ہیں۔

جواب دیں

Back to top button