
تین ماہ قبل ہمارے مسلم معاشرے پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت رمضان المبارک کے روزوں اور ان سے وابستہ عبادات و ریاضت کی صورت میں برس رہی تھی۔ انہی مقدس دنوں میں پاکستان کے سیاستدانوں کا باہمی کروفر اور ہٹ دھرمی ایک جانب حساس پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کئے ہوئے تھی کہ یہ تماشا آخر کہاں جاکر بس ہوگا تو دوسری طرف غریب عوام ناجائز منافع خوری کی چکی میں بری طرح پس رہے تھے۔ خدا خدا کرکے رمضان المبارک اور عیدالفطر کے موقع پر مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے تمام حملے غریب عوام نے برداشت کئے۔ اسی دوران نئی متحدہ حکومت کے امیدواروں اور دعویداروں کی امید افزاء باتیں بھی سننے میں آتی رہیں اور کسی حد تک امید بھی پیدا ہوئی کہ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اقتدار میں آکر کچھ مہنگائی کم کردیں گے لیکن نئی حکومت بھی بے بسی کا رونا روتے روتے غریب عوام کو کنگال کر گئی۔ پھر عید الاضحی قریب آگئی مگر ملک کے مختلف شہروں میں موجود اِکا دُکا یوٹیلٹی سٹورز پر گھی اور کوکنگ آئل کی قلت کا بحران ختم نہ ہوسکا، یوٹیلیٹی سٹورزحکومت کے مطابق کنٹرولڈ ریٹس کے ساتھ سستی اشیاء دینے کے پابند ہیں باقی سب مارکیٹوں اور دکانداروں پر تو گویا حکومت کا کوئی کنٹرول ہی نہیں اور وہ جی بھر کر چور بازاری کررہے ہیں، پس عید سے پہلے گزرے دو تین ہفتوں میں صبح سویرے یوٹیلٹی سٹورز کھلنے سے پہلے ہی خواتین کی طویل قطاریں لگنا معمول بن گیا مگر گھنٹوں انتظار کی سولی پر لٹکنے کے باوجود بھی باری آنے پر گھی اور آئل نہ ملنا غریبوں کو دن بدن مایوس ہی کرتا رہا اور یوٹیلٹی سٹورزپر بنیادی اشیائے ضروریہ کے حصول کے لیے متوسط اور غریب طبقے کی خواتین اور مردوں کی بدترین تذلیل کا سلسلہ ہی برقرار رہا۔ مختلف بیماریوں میں مبتلا ضعیف خواتین بھی گھی اور کوکنگ آئل کی تلاش میں خوار ہوتی رہیں۔ ان صارفین کا کہنا تھا کہ کسی بھی سابقہ حکومت میں غریب عوام کی ایسی تذلیل نہیں ہوئی جتنی اب ہورہی ہے۔ شہری اپنے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سے مطالبہ کرتے کرتے ہی عید کے رش میں کہیں گم ہوگئے کہ کم ازکم عید الاضحی پر ہی گھی اور کوکنگ آئل کی سپلائی طلب کے مطابق فراہم کردی جائے تاکہ غریب طبقہ سکون سے عید گزار سکے لیکن سکون اور خوشی جیسے لمحات شاید عام پاکستانی سے مستقل طور پر روٹھ چکے ہیں اور یہ عیدین پر بھی میسر نہیں ہوتے۔
بکرا عید پر غریب عوام کو ایک سہولت جو کہ دین مبین کی اعلیٰ ترین روایات نے عطاء کر رکھی ہے وہ یہ ہے کہ صاحبان استطاعت اپنی قربانیوں کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس طرح غریب لوگوں کو بھی سال بھر میں چند روز کے لیے چھوٹا، بڑا گوشت پیٹ بھر کھانے کو مل جاتا ہے اس لیے ہر غریب امیر کو ہانڈیوں میں ڈالنے کے لیے گرم اور سبز مصالحہ جات کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلب اور رسد کی کمی بیشی سے ناجائز مال کمانے والے حرام خور اس موقع کو غنیمت جان کر ان دنوں میں مصنوعی مہنگائی پیدا کر دیتے ہیں۔ لہٰذا گراں فروشوں نے اس بکرا عید پر بھی پکوانوں میں زیادہ استعمال ہونے والے ٹماٹر، مرچی، پیاز، لہسن، ادرک، لیموں اور دیگر گرم مصالحے انتہائی مہنگے کر دیئے۔ یہ مہنگائی عید سے پہلے شروع ہوکرعید کے بیس دن بعد تک جاری رہتی ہے۔ لہٰذا جو ٹماٹر پہلے 20 روپے کلو فروخت ہورہے تھے اب وہی ٹماٹر 100 روپے سے 120 روپے فی کلو فروخت کئے جارہے ہیں۔ اسی طرح گراں فروشوں نے لہسن، ادرک، مرچی، پیاز کی قیمتوں پر بھی 150 سے 200 فیصد تک اضافہ کردیا ہے جبکہ سبزیوں اور گرم مصالحہ جات کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس ناجائز مہنگائی کے سبب غریب عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اس سلسلے میں غریب عوام کا کہنا ہے کہ عوام کی بنیادی سہولیات اور خود ساختہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر ایسا کوئی سرکاری انتظام ملک بھر میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔ غریب عوام کو مکمل طور پر مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی مسلسل لاپروائی اور غفلت کے باعث ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔ عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی حکمران اور ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہوکر اسمبلیوں میں جانے والے ایم پی اے اور ایم این اے بھی عوام کے مسائل کو حل کرانے کے بجائے اسمبلیوں میں اپنے مفاد کی جنگ لڑنے میں لگے رہتے ہیں اور ملک میں ہونے والی مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور دیگر عوامی مسائل کو حل کرانے کے بجائے ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرانے میں لگ جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی غیر ذمے دار ہیں۔
تاجروں اور گرانفروشوں کے ساتھ ساتھ عیدالاضحی کے ایام میں شاہی پولیس اور ٹریفک پولیس کی جانب سے ریڑھی بانوں، چھوٹے دکانداروں، بائیک چلانے والوں، مویشیوں کی خریدوفروخت کرنے والوں سے مٹھائی اور عیدی کے نام پر بھتہ وصول کیا جانا اور قانون کی دھجیاں اڑانا بھی ہر بکرا عید کا معمول ہے۔ اس بری روایت سے بھی رشوت کی دیوی کھل کے قہقہے لگاتی ہے اور قانون بے چارہ سہم کر کہیں ایک نکڑ پر کھڑا ہو کر اپنے برباد اور لاوارث ہونے کا تماشا دیکھتا رہتا ہے۔ قربانی کے جانور لے جانے والی گاڑیوں سے منڈی سے لے کر گھر پر جانور اتارنے تک مٹھائی کے نام پر جگہ جگہ پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اعلیٰ حکومتی افسران کو شکایات کرنا بھی ایک نیا تماشا لگانے کا باعث بن جاتا ہے کیونکہ یہ افسران شکایات کے ازالے کی بجائے عوام کو دوسرے افسران اور محکموں کے فون نمبر دے دیتے ہیں اور خود ان راشی اہلکاروں سے رابطے کرکے اپنا حصہ کھرا کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں چھوٹی عید ہو یا بڑی مہنگائی مافیا تو عوام کی کھال اُتارنے سے باز نہیں آتا لیکن عید قرباں پر تو پولیس و ٹریفک پولیس کو بھی عوام سے بھتہ لینے کا گویا لائسنس مل جاتا ہے۔ جانور لے کر آنے والے بیوپاریوں اور خریداروں کو یہ اہلکار راستوں میں ہراساں کرتے ہیں اور عیدی کے نام پر رشوت وصول کی جاتی ہے۔ جس کا سلسلہ گھر یا منڈی پہنچنے تک جاری رہتا ہے۔
آج اگر ماضی سے حال تک ایک سرسری نظر دوڑائی جائے تو نظر آتا ہے کہ ایک حکومت سے دوسرے دور حکومت تک اور ایک عید سے دوسری عید سعید تک نہ تو عام پاکستانی کو اس کے بنیادی حقوق ملے ہیں اور نہ خاص تہواروں پر اضافی سہولیات کی فراہمی کا منظر اس قوم کی آنکھوں کو کبھی دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ حکومتیں ناکام اور نظام ناکارہ ہوچکا ہے۔ مارشل لاء بھی دیکھ لئے۔ نیم مارشل لائی جمہوریتیں بھی آزمائی جا چکیں۔ فیلڈ مارشل بھی بھاگ گئے اور امپورٹڈ وزیراعظم بھی ٹھس ہوگئے۔ معیشت کے ماہرین بھی ناکام ہو گئے اور ڈنڈا بردار فورسز بھی مایوس ہوگئیں۔ دہشت گردوں نے بھی یہاں کھل کر انسانی خون کی ہولی کھیلی اور مذہب کے نام پر شدت پسندی بھی عروج پر رہی۔ ہر ہتھکنڈہ الٹا پڑا اور ہر نظام ناکام ہو گیا۔ کسی بھی قوم کی زندگی میں یہ تہوار دراصل وقت کے دھاگے کو گرہ لگاتے ہیں اور قوم و ملک کو ماضی سے حال کا تقابل کرنے کا ایک موقع فراہم کرتے اور دعوت فکر دیتے ہیں۔ آج اگر پچھلے 75 سالوں کی 150 عیدوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ عید عوام کو ذبح کرنے آئی ہے۔ عوام کی پسپائی اور حکمران طبقہ کی ڈھٹائی کی اس 75 ویں سالگرہ پر ماتم تو کیا جاسکتا ہے مبارک نہیں دی جاسکتی۔ امید بھی جب جھوٹ اور دھوکا لگنے لگے تو اس سے بھی کنارہ کش ہوجانا چاہیے ۔ اس حد تک پس جانے کے بعد بھی عوام اگر سڑکوں پر نہیں نکل سکتے تو کم از کم پنجاب کے بیس حلقوں کے حالیہ ضمنی انتخاب سے مکمل طور پر بائیکاٹ ہی کردیں تو بھی یہ سیاست اور دھوکے کا فرضی نظام ننگا ہو سکتا ہے لیکن شاید عوام بھی منقسم ہیں اور اپنے بنیادی حقوق کے لیے مشترکہ اور فیصلہ کن قدم اٹھانے کا ان میں نہ تو حوصلہ ہے اور نہ تدبیر۔ اللّٰہ تعالیٰ اس قوم کا حامی و ناصر ہو







