ColumnImtiaz Ahmad Shad

فلسفہ قربانی

امتیاز احمد شاد

اسلام میں بڑے تہوار دو ہی ہیں، ایک عیدالفطر دوسرا عید قرباں۔ ان دونوں تہواروںسے دین اسلام کی شاندار روایات وابستہ ہیں۔ عیدالفطر روزوں کا شکرانہ اور قرآن مجید کے نزول کی یادگار ہے جس کے نتیجے میں پردہ عالم پر ملت محمدی کا ظہور ہوا۔ ’’عید قربان‘‘ اس بے مثال تاریخی واقعہ کی یاد تازہ کرتی ہے جو وادی مکہ میں پیش آیا ۔یہ انسانی تاریخ کا واحد خواب تھا جو مسلسل تین دن آتا رہا۔یعنی امتوں کے پیشوا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ اپنے نور نظر کو اپنے ہاتھ سے ذبح کررہے ہیں۔بہرحال حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے پہلی دفعہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے ابراہیم! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے بیٹے کو قربان کردینے کا حکم دیا ہے صبح ہوئی تو ابراہیمؑ حیرت میں تھے۔ شام تک اس بے انتہا نازک معاملہ پر احتیاط سے غور کرتے رہے، آٹھویں ذی الحجہ تاریخ کو یوم الترویہ کہا جاتا جس کا معنی غور وفکر اور تردد کے ہیں۔نویں تاریخ کوپھر یہی آواز سنی اور اب یقین ہوگیا کہ یہ حکم حق تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ نویں ذی الحجہ کا نام ’’یوم عرفہ‘‘ اسی لیے ہے یعنی پہچان اور معرفت کا دن یہاں تک کہ جب دسویں تاریخ کی شب میں بھی یہی کچھ دیکھا تو حکم الٰہی بجا لانے کے لیے بے تامل اکلوتے بیٹے کو قربان کردینے کا ارادہ کرلیا۔ دسویں تاریخ کو ’’یوم النحر‘‘ کہنے کی یہی وجہ ہے کہ نحر کے معنی ذبح کردینے اور قربان کردینے کے ہیں یعنی ذبح کرنے کا دن۔
تین راتیں مسلسل یہی خواب دیکھنے اور یقین کامل حاصل کرلینے کے بعد باپ نے بیٹے کو صورت حال کی نزاکت سے باخبر کیا اور اس کے متعلق مشورہ کرنا چاہا اگرچہ ایسے کھلے ہوئے معاملہ میں اب مشورہ کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ پھر بھی اللہ کے رسول نے مشورہ کی سنت پر عمل کرنا اس لیے اور بھی مناسب جانا کہ اس طریقے سے بیٹے کی عزیمت اور ثابت قدمی کا امتحان ہو سکتا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی نوجوان بیٹے نے بوڑھے باپ کی زبان سے یہ بات سنی ایک لمحہ کے لیے پس وپیش کیے بغیر پکار اٹھا۔ پیارے باپ! اب آپ سوچتے کیا ہیں مالک کا جو حکم ہو اس کی فوراً تعمیل کیجیے دیر کیوں اور کس لیے؟ میرے متعلق آپ اطمینان رکھیں دیکھیے کس شوق سے اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔
قرآن کریم نے تسلیم ورضا کے اس زندہ جاوید کارنامے کو اپنے خاص معجزانہ انداز میں اس طرح بیان کیا ہے۔
’’جب اسماعیل اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے اور اس لائق ہوئے کہ باپ کی ضرورتوں میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں تو ابراہیم نے کہا جان پدر میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا ابا جان! آپ کو جو حکم ہو اہے اس کو کر گزرے، خدا نے چاہا تو مجھ کو برداشت کرنے اور سہارنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے ہمارا حکم مان لیا اور تسلیم وانقیاد کی گردن جھکا دی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا تو ہم نے پکارا، اے ابراہیم! بس ٹھہرو تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہم نیک عمل کرنے والوں کو یوں ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شبہ یہ تمہاری کھلی ہوئی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا (یعنی بیٹے کی قربانی کے بدلے ایک بڑی قربانی قائم کی) اور بعد کے آنے والوں پر بھی اس کو باقی رکھ چھوڑا ۔ابراہیم واسماعیل علیہم السلام کا یہ انداز تسلیم ورضا اور جوش فدا کاری کچھ ایسا مقبول ہوا کہ اس کو ہمیشہ کے لیے ملی اور مذہبی نشان بنادیا گیا اور قربانی ایک مستقل سنت بن گئی۔
اسلام کا بہت بڑا اور اہم رکن ’’حج‘‘ جو ذی الحجہ کی نویں تاریخ (عرفہ) کو میدان عرفات میں ادا کیا جاتا ہے اور جس اور جس کے لیے دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں انسان اس بابرکت اور نورانی وادی میں بہ یک وقت جمع ہوتے ہیں اور ایک جذبہ بے تاب اور ولولہ بے پناہ کے ساتھ اپنے پروردگار کو یاد کرتے ہیں ۔حج کے دونوں میں ہر قدم پر جو ’’لبیک‘‘ کہا جاتا ہے یہ وہی حضرت ابراہیمؑ کی زبان حق سے نکلے ہوئے لفظوں کا ترجمہ ہے۔ یعنی پروردگار میں آپ کے حکم کی بجا آوری کے لیے حاضر ہوں۔ اے وحدہ لا شریک میرا سر ہر وقت آپ کی خوشنودی کے سامنے جھکا ہوا ہے۔نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں کی عصر تک جو تکبیریں پڑھی جاتی ہیں جو ان دنوں کی نہایت اہم اور خاص عبادت خیال کی جاتی ہے۔ ان کی اصل یوں بیان کی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے جبریل امین مینڈھا لے کر حضرت ابراہیم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ابراہیم خلیلؑ
حکم خدا وندی کی تعمیل (لخت جگر کی قربانی) بہ عجلت تمام کرنا چاہتے ہیں، خدا کا مقدس فرشتہ اس منظر کو دیکھ کر کہہ اٹھا اللہ اکبر اللہ اکبر خلیل اللہ نے جواب میں فرمایا لا الہ الا اللہ و اللہ اکبرحضرت اسماعیل نے جب یہ الفاظ سنے تو اسی حالت میںفرمایا : اللہ اکبر و للہ الحمد اس تفصیل کے مطابق یہ تکبیر تینوں بزرگوں کی زبان سے نکلے ہوئے پاکیزہ الفاظ کا مجموعہ ہے جو ایک خاص حالت وکیفیت میں کہے گئے تھے۔ تاریخ عالم کی اس لاثانی شخصیت کے اسوہ حسنہ کی یاد منانیں سے پہلے ذہن میں ہونا چاہیے کہ حضرت ابراہیم نے کن مشکلات کا سامنا کیا۔انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ اپنی قوم کو چھوڑا، کتنے ہی ویرانوں میں برسوں تک بے سہارے پھرتے رہے، آگ میں پڑنا گوارا کیا لیکن اپنے عقیدے پر پتھر کی چٹان کی طرح جمے رہے،۔آخر عمر میں جب ان کی تمنا اس طرح پوری ہوئی کہ قدرت نے ان کو ایک ہونہار بیٹا دیا، تو اس کو بھی خدا کی راہ میں قربانی کردینے کا حکم ہوا تو اپنے جگر پارے کے گلے پر بے تکلف چھری رکھ دی۔یہ ایک زبردست اور آخری آزمائش تھی جو معبود حقیقی نے اپنے سچے بندے کی کی۔ قربانی کے اصل مقصد اور اس کے فلسفہ پرقرآن مجید نے یوں برملا اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو گوشت پوست اور ہڈیوں اور خون سے کوئی سروکار نہیں۔یہ گل سڑ جانے والی چیزیں اس کے دربار میں نہیں پہنچتیں جو چیز اس کی بارگاہ میں پہنچتی اور شرف تقرب حاصل کرتی ہے وہ صرف دل کا ادب اور ضمیر کی پاکی ہے۔ (الحج:۷۳)۔یعنی جانور ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کھلانے یا اس کا خون گرانے سے تم کبھی بھی اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کی رضا چاہتے ہو تو اپنے اندر صبر وتحمل، نیک عملی اور پرہیزگاری کی روح بیدار کرو اور سوچو کہ جس جوش اور ولولے کے ساتھ تم نے ایک قیمتی جانور اس کے نام پر قربان کیا اسی جوش وخروش کے ساتھ زندگی کے باقی گوشوں میں بھی ایثار وقربانی کا ثبوت دینے کے لیے آمادہ ہو؟انسانیت کا احترام، بھائی چارہ کا قیام، اخوت ومساوات، پڑوسیوں کے حقوق کی نگہداشت، دعوت امن اور قیام عدل،، دشمنوںسے بھی حسن سلوک ،مایوسیوں اور نا امیدیوں کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی امید کی چٹان پر مضبوطی سے جمے رہنا، بے سہاروں اور ناداروں کی ضرورتوں کا احساس ایسے تمام عنوانات ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button