ColumnImtiaz Aasi
یوم عرفہ دعائوں کی قبولیت کا دن .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
ایک عشرہ سے زائد عرصہ تک مسلسل حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جونہی ذوالحجہ کے ایام شرو ع ہوتے ہیں، ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور میری آنکھوں کے سامنے منیٰ اور عرفات کے وہ مناظر آجاتے ہیں جب اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لاکھوں مہمان عازم عرفہ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے عرفات کا دن اس اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے عید کا دن ہے۔اس روزعرفات میں وقوف کرنے والوں کے گناہوں کی بخشش اور دوزغ کی آگ سے آزادی ملتی ہے۔ عرفات کادن اس لحاظ سے بھی مبارک ہے اس دن حج کا سب سے بڑا رکن یعنی رکن اعظم ادا کیا جاتا ہے۔ وقوف عرفات کے لیے ہر حاجی کے لیے میدان عرفات پہنچنا لازمی ہوتا ہے ۔
عرفات میں ٹھہرنے کو ہی وقوف عرفات کہتے ہیں ۔ حج کرنے کے بعد انسان ایسے ہو جاتا ہے گویا اس نے ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہے، یہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ہے ۔عرفات کے روز حجاج کرام ایک ہی لباس میں ہاتھ پھیلائے منعم حقیقی کی بارگاہ میں دعائیں اور مناجات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مہمان اپنی دنیاوی خواہشات اور زندگی کے جھمیلوں سے آزاد ہو کر اللہ سبحانہ تعالیٰ سے لو لگائے ہوتے ہیں۔حجاج کرام کی بہت بڑی تعداد مسجد نمرہ میں جگہ نہ ہونے کے باوجود نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کرتی ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے خطبہ الوداع جبل رحمت پر فرمایا تھا اسی مناسبت سے حجاج کی بڑی تعداد جبل رحمت پہنچ جاتی ہے۔عرفات کا دن امہ کے لیے باعث رحمت و مغفرت کادن بھی ہے۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے ایسا دن ہے جس کے لیے انسان عمر بھر انتظار میں رہتا ہے۔
ذوالحجہ کی نو تاریخ کوئی شخص میدان عرفات میں وقوف نہیں کرتا تو چاہے وہ سال بھر عرفات میں قیام کرے اس کا حج نہیں ہوتا۔عرفہ کے روز انسانی کیفیت اس طرح ہوتی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے آج حساب کا دن ہے اوروہ ہ بارگاہ ایزدی میں پیش ہے۔حج کی فرضیت اور اہمیت اس لحاظ سے اہم ہے فرمایا اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اس کے گھر پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو اور اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔نصف صدی قبل مشاعر مقدسہ میں یعنی منیٰ ،مزدلفہ اور عرفات میں پینے کا پانی نایاب تھااب تو عرفات اور مزدلہ میں پینے کا پانی اور طہارت خانوں کے وسیع تر انتظامات ہیں۔ عرفات میں حجاج کا اجتماع مسلمانوں میں اتحاد اور یک جہتی کا مظہر ہوتا ہے۔ حجاج ظہر اور عصر کی نمازیں عرفات میں ادا کرنے کے بعد مغرب تک وہیں وقوف کرکے رب کے حضور اپنے گناہوں اور تقصیروں کی معافی کے طلب گار ہوتے ہیںجیسے ہی اذان مغرب ہوتی ہے ایک زور دار دھماکہ ہوتا ہے جواس بات کی علامت ہوتی ہے کہ حجاج کرام عرفات سے نکل جائیں۔ عرفات سے جانے کے بعد انہیں مزدلفہ میں ایک رات قیام کرنا ہوتا ہے جہاں مغرب اور عشاء کی قصر نمازیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ہر حاجی کی زبان پر اے اللہ میں حاضر ہوں کی صدا ہوتی ہے۔
نبی رحمت ﷺ نے خطبہ حج میں امت کو زندگی جو قرینہ بتلایا وہ تاقیامت مسلمانوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ فرمایا جو شخص میری باتوں پر عمل پیرا رہے گا کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔ جناب رسالت مآب ﷺ نے خطبہ کے دوران اس جانب اشارہ دے دیا تھا ہوسکتاہے اگلی مرتبہ میں آپ میں موجود نہ ہوں۔ 9ذوالحجہ 672 عیسوی کو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے لوگو مجھے نہیں لگتا اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا۔میری باتوں کو غور سے سنواور ان لوگوں تک پہنچا دو جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔اے لوگو جس طرح یہ آج کا دن یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت وحرمت والے ہیں بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی ، عزت اور مال حرمت والے ہیں،(تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے) لوگوں کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو،کسی کو تنگ نہ کرو،کسی کا نقصان نہ کرو تاکہ تم بھی محفوظ رہو، یاد رکھو تم نے اللہ سے ملنا ہے اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔
اللہ نے سود کو ختم کر دیاہے اس لیے آج سے سارا سود ختم کرو(معاف کرو)تم عورتوں پر حق رکھتے ہو ااور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو، عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ اختیارکر و کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار اور بے لوث خدمت گذار رہتی ہیں۔ کبھی زنا کے قریب بھی مت جانا، اے لوگو میری بات غور سے سنو،صرف اللہ کی عبادت کرو،پانچ فرض نمازیں پوری کرو،رمضان کے روزے رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو،استطاعت ہو تو حج کرو،ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،تم سب اللہ کے نزدیک برابر ہو،برتری صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے۔یاد رکھو تمہیں ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے،
خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہونا،یاد رکھنا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا،میری باتیں اچھی طرح سمجھ لو،سنو تم جو لوگ موجود ہو،اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانااور وہ پھر اگلے لوگوں تک پہنچائیں اور یہ ممکن ہے وہ بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ اور عمل کرسکیں۔پھر نبیﷺ نے آسمان کی طرف چہرہ مبارک اٹھایا اور فرمایا اے اللہ گواہ رہنا میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔خطبہ الوداع ہمیں کیا پیغام دیتا ہے ۔ہم حج کرنے کے بعد جیسے گئے ہوتے ہیں ویسے ہی واپس لوٹ آتے ہیں۔حج کے بعد ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے ہمارا حج مبرور نہیں ہوا ہے۔حج مبرور کی نشانی ہے کوئی شخص حج کی سعادت کے بعد واپس لوٹے اور اس کے معمولات زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوں تو سمجھ لیں اس کا حج قبول ہوگیا۔حق تعالی سے دعا ہے وہ ہمیں حج کی سعادت سے بہرہ ور فرمائے جو ہماری زندگیوں میں تبدیلیوں کا باعث بن سکے۔آمین







