Column

 عمران خان اب کیا کریں گے؟  … سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
ایک خوانچہ فروش امرود بیچ رہا تھا۔ چند کلو امرود فروخت کرتے کرتے اسے یقیناً سارا دن گزر جانا تھا لیکن ہوا یہ کہ ایک گاہک آیا اور اس نے کہا کہ سارے امرود کتنے کے دوگے؟ اس نے اندازے سے تھوڑا زیادہ نرخ بتادیا کہ اس نے کون سا خرید لینے ہیں نرخ پوچھے گا اور چلا جائے گا لیکن گاہک مستقل مزاج تھا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے یہ لو پیسے اور وہ سارے امرود لے کر چلا گیا۔ گاہک تو چلا گیا لیکن خوانچہ فروش زور زور سے رونے لگا کہ ہائے اب میں سارا دن کیا کروں گا۔ احتساب اور تبدیلی کے بیانیے کی اس قدر جلدی فروخت کے بعد کیا عمران خان اس بار پارلیمانی سیاست سے آگے کا کچھ سوچ رہے ہیں۔ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک عدم اعتماد اب وہ اس نظام کے خلاف پیش کرنے جا رہے ہیں۔ پریڈ گراؤنڈ کے جلسے سے وہ کیا حاصل کر پائے ہیں۔ گوکہ بحران تو پارلیمان کے اندر تھا لیکن میلہ پارلیمان کے باہر سجادیا گیا۔ عمران خان پارلیمان میں گم ہونے والی وزارت عظمیٰ کی چابی کو پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں تلاش کرتے رہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ ووٹر جب مخالفت میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہ کسی ایک جلسہ کے دباؤ سے واپس نہیں آیا کرتے۔ وہ یہ بھول گئے کہ سیاست میں آخری بال تیسری گیند پر ہی کروا دیا جاتاہے اور وہ آخری بال تک کھیلنے کا شوق پالتے رہے۔ وہ محض سیاسی مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگانے کو ہی اپنی کامیابی جانتے اور گردانتے رہے۔ وہ ٹویٹر ٹرینڈز کو ہی کار وزارت سمجھ کر کرتے رہے اور قوم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی طرح اتحادیوں سے کئے گئے وعدے بھی فراموش کر گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادی بھی مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ گئے۔
کچھ لوگ عمران خان کے پریڈ گراؤنڈ کے اس جلسہ عام کو ان کی آئندہ انتخابات کی مہم کا نقطہ آغاز سمجھ رہے تھے۔ ہمارے خیال میں اس کا جواب بھی نفی میں ہے اور یہ بات محض جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے۔ گذشتہ انتخابات میں جب وہ اپنی مقبولیت کے نقطہ عروج پر تھے، تب بھی انہیں قاف لیگ، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینا پڑا تھا تب جا کر چند ووٹوں اور نصف درجن اتحادی جماعتوں کی بدولت ان کی حکومت قائم ہو سکی تھی۔ پریڈ گراؤنڈ جلسہ میں ماحول مختلف ہوگیا تھا۔ تب حزب اختلاف کے اقوال زریں کا رومان بھی تھا، اب اس جلسے میں ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کا نامہ اعمال پیٹھ پر رکھا تھا اور الیکٹیبلز بھی منہ موڑ چکے تھے، اب آئندہ بھی انتخابی کامیابی اتنی آسان نہیں۔
شاید عمران خان اس بار پارلیمانی سیاست سے آگے کا سوچ رہے ہیں۔ لاہور میں ہونے والا ان کا 2011 کا تاریخی جلسہ تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست میں جس اہمیت کا حامل ہے، ہو سکتا ہے پریڈ گراؤنڈ کا جلسہ تحریک انصاف کی پارلیمان سے آگے کی سیاست میں وہی اہمیت اختیار کر جاتا لیکن دوران اقتدار پارلیمانی سیاست میں بھی عمران خان جمہوری آداب سے بے نیاز رہے۔ اپنی افتاد طبع کے مطابق وہ پارلیمانی جمہوریت کے آدمی ثابت نہیں ہوئے۔ ان کی جماعت کی فکری ساخت بھی ان جمہوری تکلفات سے بے نیاز رہی۔ پارلیمان میں وہ حزب اختلاف کو ایک غیر ضروری چیز سمجھتے رہے حالانکہ پارلیمنٹ میں
اپوزیشن کے ساتھ کسی حد تک عملی اشتراک رکھنا پڑتا ہے لیکن انہوں نے خود کو ایک اعلیٰ درجے کا دیانتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کو چور ڈاکو قرار دے کر ان سے ہاتھ ملانے سے بھی اعلانیہ اجتناب کیا۔ ان کے تنظیمی ڈھانچے کی جمہوری فہم و فراست کا خلاصہ یہ ہے کہ اوپر بندہ دیانت دار ہو تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسی منطق کے تحت ہر جماعت سے بندے لئے گئے اور توڑے گئے، یہاں تک کہ زرداری کے وزیر خزانہ کو مشیر خزانہ بنا دیا گیا کہ اوپر بندہ دیانت دار ہونا چاہیے، نیچے سب چلتا ہے۔ چنانچہ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار ملا تو معلوم ہوا کہ نہ کوئی تیاری تھی نہ منصوبہ بندی۔ بس ایک ہیرو پرستی تھی کہ اوپر ایک دیانت دار بندہ آئے گا اور شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پینے کے بعد رات گئے تک مل کر شہروں میں مٹر گشت کیا کریں گے۔ یہ خواہش پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی اور آج نیچے والے نااہلوں کا اوپر والا بھی پٹ گیا ہے۔
تحریک انصاف کے سامنے اب دو بڑے چیلنج ہیں۔ اول یہ کہ ان سے ان کی کارکردگی کا حساب نہ مانگا جائے۔ شاید اسی تحفظ کی خاطر یہ کہا گیا کہ ہم آلو پیاز جیسی معمولی چیزوں کی قیمتوں کی نگرانی کرنے نہیں آئے تھے، ہمارے اہداف بہت بڑے اور بلند ہیں۔دوسرا یہ کہ اوپر بندہ ایماندار ہو تو سب ٹھیک ہو جائے گا جیسا ہی کوئی نیا نعرہ تخلیق کر لیا جائے۔ اس نعرہ کی مکمل رونمائی میں بھی وقت لگے گا۔مذہب کا کارڈ بھی عمران خان کے ہاتھ میں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی مذہبی جماعتیں اب مذہب کارڈ کی پاکستانی سیاست میں بری طرح ناکامی کے بعد قومی مسائل کی سیاست کر رہی ہیں لیکن عمران خان کی سیاست کا محور اب مذہب کا استعمال بن گیا ہے۔ سامراج دشمنی کا پرچم بھی وہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ احتساب کا جھنڈا ابھی بھی ان کے پاس ہے۔ ارطغرل اور کسی مذہبی انقلابی ہیرو کی طرح وہ بے پناہ خوبیوں سے مالا مال ہیں لیکن بقول ان کے یہ پارلیمانی سیاست کی بلیک میلنگ ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے، چنانچہ عین ممکن ہے کہ اب وہ یہ مطالبہ کر دیں کہ ایک فرشتہ صفت سیاسی مسیحا اب ایک نیا نظام مانگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کا یہ خیال ہے کہ ووٹر کی وابستگی ان کی ذات سے ہے۔
مگر سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان اگر نظام کو چیلنج کرتے ہیں تو نتیجہ کیا ہوگا۔ ان کے امریکہ پر لگائے گئے الزامات کا نتیجہ کیا نکلے گا جبکہ امریکہ کی طرف سے بیان جاری ہو چکا ہے کہ عمران خان کے لگائے گئے الزامات درست نہیں۔ اس امر کے باوجود کہ امریکہ پاکستان کے آئینی عمل کے احترام کا دعویدار ہے۔ آج اگر امریکہ کی نظر میں عمران خان اور پاکستان کے پارلیمانی عمل کو الگ الگ کر کے دیکھا جارہا ہے تو آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button