Column
چوراہوں پر لگی عوامی عدالتیں …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
اسلام اور باقی تمام مذاہبِ بھی کسی بھی فرد پر جرم ثابت ہوئے بغیر اسے سزا دینے کے سخت خلاف ہیں،بالخصوص ریاست کے باشندوں کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جس پر چاہیں کوئی الزام لگا کر اسے خود ہی سزاہیں دینا شروع کر دیں۔ 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے مشال خان نامی نوجوان طالب علم کو توہین رسالت کے الزام میں وحشیانہ تشدد کرنے کے بعد گولی مارکر قتل کر دیا گیا۔ مشال خان کے لواحقین آج بھی اپنے پیارے کے خون میں رنگے ہاتھوں کو تلاش کر رہے ہیں۔اسلام کے نظام عدل میں ریاست کے کسی باشندے کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار کبھی بھی نہیں دیا گیا اور اسلام کا نظام عدل دنیا کا بہترین نظام عدل ہے اسی لیے اس میں قاضی(جج)کا فیصلہ ہی حتمی تصور کیا جاتا ہے۔اس سے تھوڑا پیچھے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں سیالکوٹ میں پر تشدد ہجوم دو نوجوان بھائیوں کو شدید تشدد کر کے ہلاک کر دیتے ہیں اور پھر ان کی لاشیں کھمبوں کے ساتھ لٹکا دی جاتی ہیں۔اس تمام پرتشدد کارروائی میں مقامی پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار اداکرتی ہے اور معاشرے کے ناسوروں کو وحشیانہ طریقے سے دونوں نوجوان بھائیوں کی جان لینے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ ٹی وی چینلز اس تمام کارروائی کو عوام کو دکھاتے بھی رئے لیکن ان دونوں نوجوانوں پر وحشیانہ تشدد روکنے کو کوئی بھی آگے نہ آیا اور پھر ان کے جسموں کو روئی کی طرح بنا کر چوک میں ایسے لٹکا دیا گیا جیسے پاکستان کوئی ریاست نہیں اور یہاں جنگل کا قانون ہے۔یہ پاکستان کے غالباً پانچویں بڑے شہر کے ایک بارونق علاقے کا دردناک واقعہ ہے کہ جہاں ہر وقت سینکڑوں افراد دکھائی دیتے ہیں۔
چند ماہ قبل سیالکوٹ میں ہی سری لنکن شہری کو فیکٹری میں صفائی نہ کرنے پر کچھ ملازمین نے مذہبی منافرت کا نشانہ بنا کر سرعام قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی۔ وہ ریاست پاکستان کے ماتھے پر ایسا کلنک کا ٹیکا ہے جس کو کبھی بھی دھونا ممکن نہیں ۔سری لنکن شہری پریانتھا کمارا جو ایک گارمنٹس فیکٹری میں کوالٹی منیجر تھا کو مبینہ توہین رسالتﷺ میں ملوث کر کے جس ظالمانہ اور وحشیانہ تشدد کر کے اس کی نعش کو جلانے کے واقعہ نے ہلاکو خان اور چنگیز خان کے زمانے کی یاد تازہ کر دی تھی۔یہ لکھنا تو بیکار ہے کہ اس سانحہ کے ذمہ داران کے خلاف کیس چل رہے ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ جو بھی آتا ہے، نہ تو پریانتھا کمارا کو دوبارہ زندگی مل سکتی ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر ہونے والی بدنامی کبھی دھل سکتی ہے۔فروری 2022 میں میاں چنوں میں مشتعل ہجوم نے اسلم نامی ایک شخص کو توہین رسالت ﷺکے الزام میں ڈنڈوں،لوہے کے راڈوں اور اینٹوں سے بدترین تشدد کے بعد نہ صرف ہلاک کر ڈالا بلکہ اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ کر حیوانیت کا مظاہرہ کیا گیا۔افسوس ناک حقیقت یہ تھی کہ میاں چنوں میں مقامی پولیس کی موجودگی کے باوجود مشتعل افراد نے ان کی ایک نہ سنی اور یوں اسلم نامی شخص کو سزا دے کر درخت سے باندھ کر درندگی اور حیوانیت کا پرچار کیا گیا۔سنا ہے کہ اس سانحہ میں ملوث 300 افراد کے خلاف ایف آئی آر کاٹ کر مرکزی 60 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ایک شخص بے بسی کے عالم میں وحشی ہجوم سے زندگی کی بازی ہار گیا اور اسے بچانے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا۔بربریت کی بدترین مثال۔وہاں کے مشتعل ہجوم کی اس بربریت سے بھرپورواردات نے جہاں انسانیت کو شرما دیا، وہاں عذاب الٰہی کو بھی دعوت دی۔ مجھے تو یہ سوچ کر جھرجھری آتی ہے کہ جب سب مل کر ایک نہتے بوڑھے پر تشدد کر رہے ہوں گے تو اس کی بے بسی اور بے چارگی پر مشتمل گریہ زاری اور فریاد آسمانوں کے پردے چاک کر کے کہاں کہاں تک نہیں پہنچی ہو گی؟
منظر نامہ اور مقام تبدیل ہوتا ہے۔دن ہے 22 مارچ 2022 اور قصور کی تحصیل پتوکی میں ایک شادی گھر میں بارات آ چکی ہے، نکاح کے بعد سینکڑوں لوگ کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں، باراتی گپ شپ میں مصروف ہیں جبکہ میزبان کھانے کا اہتمام کررہے ہیں۔شادی پرمدعو بچے شادی ہال کے باہر مختلف چھابہ فروشوں سے چیزیں خرید کر کھانے میں بھی مصروف ہیں کہ یک دم ایک شخص اپنی جیب کٹنے کا شور مچا دیتا ہے اور وہ ہی یا پھر کوئی اور کوئی شخص ہال کے باہر پاپڑ بیچنے والے اشرف سلطان پر جیب کاٹنے کا الزام لگا دیتا ہے۔پچاس سالہ اشرف سلطان جو سردی اور گرمی میں قریہ قریہ پیدل چل کر اپنے بچوں کے لیے شاید ایک وقت کی روٹی بمشکل کماپاتا تھا ، اس پر چوری کا الزام لگتا ہے پھر میزبان اور درجنوں باراتی اِس ٹوٹ پڑتے ہیں۔ایک نہتے اور غریب پاپڑ فروش پر سب ہی”بہادر“اور”نیک“لوگ اپنی طاقت آزماتے ہیں۔اشرف سلطان کو بچانے کے لیے کوئی آگے نہیں آتا اسی اثناءمیں کھانا شروع ہونے کا اعلان ہوتا ہے ۔ ایک جانب دیہاڑی دار اشرف سلطان نا کردہ گناہ کی سزا پا رہا تھا اور دوسری جانب شادی کا کھانا کھول دیا گیا ، بے حسی ، سفاکیت اور ظلم عروج پر تھا، انسانیت کو پیروں تلے روندا جارہا تھا نڈھال ہوکر اشرف زمین پر گر پڑا اِسے بے جان ہوتا دیکھ کر تشدد کرنے والے باراتی کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے کچھ دیر پہلے پاپڑ فروش پر ٹوٹ پڑے تھے۔
شادی ہال میں موجود تمام افراد میزوں پر بیٹھے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور صرف نام کا سلطان،اشرف پاپڑ والا زمین پر پڑا تھا اور کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ کوئی اسے پانی پلا دیتا یا طبی امداد کے لےے کسی ادارے کو فون کردیتا۔پبلک سو موٹو یا عوامی انصاف کے نام پر ایک اور بے بس،مجبور اور غریب انسان اپنی زندگی کی بازی ہار چکا بلکہ قتل ہو چکا تھا۔اس معاشرے میں جہاں اربوں لوٹنے والے بڑی بڑی گاڑیوں اور درجنوں محافظوں کے ساتھ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں وہاں ایک پاپڑ فروش غریب بے بس انسان پر جیب کاٹنے کا الزام لگا کر اس کو تشدد سے قتل کر دیا گیا یہ کہاں کی بہادری ہے۔اربوں لوٹنے والوں کے نعرے لگانے والی قوم کے باشندوں کا یہ عمل صرف اور صرف عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔اشرف سلطان کا قتل اور پھر شادی ہال میں اس کی میت پڑے ہونے کے باوجود تمام مہمانوں کا کھانا کھانے میں مصروف رہنا،بے حسی کی نا قابل یقین مثال اور انسانیت کی کتنی بڑی تذلیل ہے، اس کے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ پتوکی میں اشرف سلطان کا شادی کے مہمانوں کا سرعام قتل اور پھر اس کی میت کے سامنے کھانا کھانا ایسا بدترین فعل ہے جس نے دنیا بھر میں بے حسی اور معاشرتی پستی کی وہ مثال پیدا کی ہے کہ جسے دیکھ اور سن کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔اشرف سلطان کا وحشیانہ قتل جہاں حکمرانوں،پولیس، انصاف فراہم کرنے والے اداروں اور ہمارے بے حسی اور انحطاط پذیر معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے وہاں یہ پاکستان کی اسلاموفوبیا پر کی جانے والی کوششوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے15 مارچ کو اسلاموفوبیا کا دن قرار دینے کے بھی خلاف ایک بہت بڑی سازش کے طور پر سامنے آئے گی۔ کالم میں جگہ کی قلت کے باعث کچھ ہی واقعات لکھ پایا لیکن ایسے تمام واقعات پاکستان میں قانون کی عدم حکمرانی کی نشاندہی کرتے ہوئے معاشرے میں عدم انصاف اور بدترین روایات کو جنم دے رہے ہیں جو ریاست کی سلامتی کے تناظر میں نہایت ہی خطرناک ہیں۔





