Column

سب ہی امید پر جیتے ہیں …. علی حسن

علی حسن

عجیب اتفاق ہے کہ سب ہی امید سے ہیں۔ جنہوں نے عمران خان کو حکومت سے فارغ کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد داخل کی ہے، اس امید پر جیتے ہیں کہ دل کا جان توٹھہر گیا ہے۔ جنہوں نے تحریک کو ناکام بنانا ہے یعنی خود وزیر اعظم عمران خان ، وہ کہتے ہیں ” اے دل تو نہ گھبرا“۔ حقیقی صورت حال کے بارے میں تو کھیل میں شریک بہت سارے افراد بھی لا علم ہیں۔ دونوں طرف سے لمبے چوڑے اور اونچے دعوے کئے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے وزیر اعظم سے اپنی زوجہ سمیت ملاقات کے بعد تبصرہ کیا ” جو ہونے والا ہے وہ نہیں ہونے والا، اور جو نہیں ہونے والا وہ ہونے والا ہے“۔ ان کی اس پہیلی کا نتیجہ تو ووٹنگ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے عمران خان کو قائل کرلیا ہے۔ کہتے ہیں وزیراعظم سے دوستی تو میری پہلے سے تھی، مگر ووٹ کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا لیکن میں نے قائل کرلیا ہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں کمزور حیثیت سے سامنے آنے والی ایم کیو ایم جو عمران حکومت کی حلیف جماعت ہے (اس وقت تک تو تصور کی جائے گی جب تک وہ خود دامن چھڑا کر کسی اور سے ہاتھ نہ ملا لے) اس کمزور حیثیت میں بھی اپنے بھاﺅ تاﺅ میں مصروف ہے۔ ایک آتا ہے تو دوسرا جاتا ہے والی مثال ہے۔ ایم کیو ایم سے ملاقات کر کے جانے والے مولانا فضل الرحمان کہتے ہیںکہ ایم کیو ایم فیصلہ کرے گی اور ہمارے ساتھ جائے گی۔ آصف زرداری فون کرکے ملاقات کی دعوت دیتے ہیںانکا کہنا ہے کہ آپکے تمام مطالبات کی منظوری کا گرین سگنل دیدیا ہے۔ انہوں نے خالد مقبول سے تحریک عدم اعتماد کے بارے میں ایم کیو ایم کے فیصلے بارے میں معلوم کیا اور کہا کہ میں نے آپ سے براہ راست مجھ یا بلاول بھٹو سے ربطے کا کہا ہے۔ خالد مقبول کو اسلام آباد میں ملاقات کی دعوت دیتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ جو معاملات طے ہوں گے اُن پر مکمل عمل در آمد کیا جائے گا۔ میں اوربلاول آپ سے براہ راست رابطے میں رہیں گے اور معاملات کی خودنگرانی کریں گے۔ اسلام آباد میں ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کہتے ہیںکہ مشاورت جاری ہے، ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، ہم تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے فیصلہ کرلیں گے ۔ ہمیں جلدی نہیں، آرام سے فیصلہ کریں گے، اپنے لوگوں اور اپنے شہر کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے۔اِدھر بلاول نے کہا ہے کہ انھوں نے مطالبات مان لیے ہیں، لیکن یہ مطالبات زبانی مانے گئے ہیں، اس کا ایک پورا طریقہ کار ہوتا ہے، باقاعدہ تحریری شکل دی جاتی ہے ساری چیزیں جب تک طے نہیں ہوں گی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ نون لیگ کے ساتھ بات ہو یا پیپلز پارٹی کے ساتھ ، تحریری معاہدہ ہوگا تو سامنے آجائے گا، ایم کیو ایم کے فیصلے سے متعلق اعلان رابطہ کمیٹی کی مشاورت سے ہوگا، تمام چیزیں رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے پھر رابطہ کمیٹی فیصلہ کرے گی۔حکومت کے وفاقی وزیر اسد عمر ملاقات کرتے ہیں تو ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی گلہ کرتے ہیں کہ ساڑھے3 سال سے اتحادی ہیں، بتائیں کونسا وعدہ پورا کیا؟ ہمارے دفاتر ابھی تک بند ہیں اور لاپتہ افراد بھی بازیاب نہیں ہوئے۔ دوران گفتگو حکومتی وفد نے ایم کیو ایم پاکستان سے اتحاد سے باہر نہ جانے کی درخواست کی اور کہا کہ جو وعدے کیے ہیں پورے کریں گے، اس وقت ہمیں تنہا نہ چھوڑیں اور پھر یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حکومت کی تین بڑی اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے۔
حکومتی اتحادیوں کا اپوزیشن کی حمایت کا باضابطہ اعلان 25 مارچ کو متوقع ہے۔حکومت کی اتحادی تینوں بڑی جماعتوں نے فی الحال باضابطہ طور پر اپوزیشن کی حمایت کرنے کی تصدیق نہیں کی ۔حکومتی کمیٹی نے وزیرِ اعظم عمران خان کو آگاہ کر دیا ہے کہ اتحادی ہمارے ساتھ نہیں چلنا چاہتے۔ ویسے بھی حکومت کی اتحادی جماعتیں حکومت مخالف جماعتوں کی حمایت کرنے پر آمادگی تو ظاہر کر رہی ہیں لیکن قاف لیگ ہو یا ایم کیو ایم، اختر مینگل ہوں یا بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سب کو گارنٹی چاہیے کہ اس سے جو وعدے کئے جائیں گے انہیں پورا کیا جائے گا۔ آپس میں دلوں میں کدورتیں موجود ہیں۔ قاف لیگ والے نون لیگ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ ایم کیو ایم نون لیگ اور پی پی پر زبانی اعتماد نہیں کر سکتی، یہ تو عمران خان مخالفت میں یک زبان ہیں لیکن پاکستان میں سیاست دانوں کی زبانیں جلد ہی پھسل جاتی ہیں اور کدورتوں میں اضافہ ہی ہو جاتا ہے۔
فوج کے ترجمان نے ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ دلچسپ تبصرہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے، جن کا کہنا ہے کہ سیاستدان صبح لڑتے ہیں، شام میں اکٹھے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں، سیاستدانوں کو آپس میں طے کرنے دیں، فوج مداخلت نہیں کرے گی،عوام صحیح لوگوں کو ووٹ دیں گے تو پاکستان بدلے گا۔ میڈیا کے لوگ انسان بن جائیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ پاکستان کا مسئلہ ہم ہیں تو میڈیا بھی ہے“ ۔ ایک نجی چینل کے مطابق وہ یوم پاکستان کی پریڈ کے اختتام کے موقع پر میڈیا اورسندھ، بلوچستان اور فاٹا کے نوجوانوں سے غیر رسمی گفتگو کررہے تھے۔جنرل باجوہ کاکہناتھاکہ ہم چاہتے ہیں کہ منتخب نمائندے ہی فیصلہ کریں کہ اس ملک کے لیے کیا بہتر ہے۔ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔فوج مداخلت کرے تو بھی نہ کرے تو بھی برا بھلا سننے کو ملتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button