Column

خدا کے خاموش عذاب کی دستک ۔۔۔۔۔ احمد نوید

احمد نوید

میں اکثر کوشش کرتا ہوں کہ اخلاقیات سے ہٹ کر کچھ لکھوں ، لیکن پھر کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ پیش آتا ہے کہ مجھے واپس انسانیت ، اخلاقیات اور تہذیب کی بات پر آرُکنا پڑتا ہے ۔ یہ واقعہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرا ہے ۔ اگر یہ ویڈیو کلپ میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو شاید میں اس پر یقین نہ کرتا ، خواہ لوگ لاکھ یقین دلانے کی کوشش کرتے ۔
پتوکی شہر کے ایک شادی ہال میں دو تین سو کے لگ بھگ لوگ کھانا کھا رہے تھے اور اُسی شادی ہال میں بارات کی اُس تقریب میں مدعو مہمانوں کی پشت کے پیچھے اشر ف نامی پاپڑ والے کی لاش پڑی تھی ۔ اس واقعہ کے محرکات کچھ بھی ہوں ، لیکن کسی محنت کش ، دیہاڑی دار مزدور کی لاش آپ کے پہلو میں پڑی ہو اور وہاں موجود انسانوں (جنہیں میں انسان کہنے پر معذرت خواہ ہوں ) کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہو مگر کوئی کھانا چھوڑ کر اُسے دیکھنے کی زحمت نہ کرے ۔ میں حیران ہوں کہ وہاں موجود لوگوں کے حلق سے کھانا کیسے نیچے اُتر رہا تھا۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ سیالکوٹ والے ہجوم اور اِس میرج ہال میں موجود ہجوم میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ایسے ہجوم اور ایسے ہی لوگ بھارت میں مسلمانوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔ اِنہیں انسان کہا جا سکتا ہے نہ انسانیت کے دائرے میں داخل کیا جا سکتا ہے ۔
غالباً آج ہم انسان کہلانے کے لائق نہیں رہے ۔ ہم سے تو شاید جانور ہی اچھے ہیں۔اشرف پاپڑ والا غریب محنت کش تھا۔ چودھری ، تاجر، سیاستدان ، بیوروکریٹ ، فوجی ، پولیس کے شعبے سے یا وہ کسی بھی مرتبے ، مقام یا عہدے پر فائز ہوتا تو ایسا ہر گز نہ ہوتا کہ اُس کی لاش موجود ہوتی اور باراتی کھانا تناول فرما رہے ہوتے ۔
ایسے ہی واقعات اور سانحات قہر کو دعوت دیتے ہیں ۔ ہم پانچ وقت کی نماز یاد رکھتے ہیں مگر 24گھنٹوں کا اخلاق یاد نہیں ۔ یہ المناک منظر سفاکی بھی تھا اور درندگی بھی ۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اشرف پاپڑ والا مرگیا۔حادثاتی موت تھی یا
لوگوں کے ہاتھوں ہلاکت ہوئی ۔ وزیراعلیٰ کی سطح پر نوٹس لے لیا گیا۔ آئی جی پنجاب نے ٹیم بنادی ۔ بارہ افراد گرفتار ہو گئے ۔ تفتیش شروع ہو گی ۔ کسی کی ضمانت ہو گی کسی کو سزا مل جائے گی ۔ کیس بند اور ہم پھر ایک نئے سانحے یا واقعے کے منتظر ہوں گے ۔ سوال اور غور طلب بات یہ ہے کہ ہماری اخلاقیات کا آئے روز جنازہ کیوں اُٹھ رہا ہے ۔ آئے روز ہمارے آس پاس ہمیں انسانیت دم توڑتی کیوں دکھائی دیتی ہے ۔ لمحہ فکریہ ہے کہ درمیان میں پڑی میت کے ساتھ جو افراد کھانا کھا رہے تھے ، اُن کے نوعمر بچے بھی اُن کے ہمراہ تھے ۔ وہ بچے جنہیں کل اس قوم کا مستقبل بننا ہے۔ ہم نے اُن کی شخصیت اور کردار سازی کی بنیادوں میں ملاوٹ تو اُسی وقت کردی ، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آنے والے کل میں ایک اچھے اور تعمیری معاشرے کی تشکیل کو پورا ہوتے دیکھی۔
انسان ہونا تو ایک رتبہ تھا ، ایک مقام تھا ، ایک مرتبہ تھا۔ کردار سازی کے لیے والدین بہت محنت کیا کرتے تھے ۔ تعلیم سے بڑھ کر تربیت پر توجہ دی جاتی تھی ۔ مجھے یہاں یہ بات کہنے کی جسارت کرنا ہوگی کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ قوم کیا ہوتی ہے۔ قوموں کے مثبت پہلوئوں میں اخلاقیات، تربیت ، تعلیم ، مساوات ، سماجی انصاف ، سماجی اصلاح ، حب الوطنی ، احساس ، ہمدردی ، لحاظ ، حق اور سچ گوئی، مظلوم اور کمزور کا تحفظ ، انسان دوستی ، احترام ِ آدمیت ، نظم و ضبط ، اتحاد اور دیگر بہت سی خوبیاں مل کر قوم بناتی ہیں۔ محض کوئی ایک نظریہ یا ایک وصف کسی خطے میں ایک جگہ رہنے والوں کو ایک قوم بنانے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ سیالکوٹ والا واقعہ ، مری والا سانحہ اور اب پتوکی میں کسی محنت کش کی لاش کی اس قدر بے توقیری ۔ ہمیں اخلاقی طور پر ایک قلاش قوم قرار دینے کے لیے کافی ہے ۔
ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ایک بہتر معاشرے کی بنیاد رکھنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ہم خود کو ایک بہتر انسان بنانے میں ناکام رہے ہیں ۔ ہم ایک بہتر قوم بننے میں ناکام رہے ہیں ۔ ہم عاجزی سے کوسوں دور ہیں۔ ہم ذہنی پختگی سے میلوں دور ہیں ۔ ہم بدتمیز ، بدلحاظ ، بداخلاق ، بے ضمیر ، اساس اور احساس سے عاری معاشرہ بن چکے ہیں ۔ پتوکی کے میرج ہال میں محنت کش اشرف کی لاش نہیں ، بلکہ ہمارے اُس معاشرے کی لاش پڑ ی تھی ۔ جہاں بے حسی ناچ رہی ہے ۔ جہاں غیر شائستہ ،اخلاق سے گری ہوئی زبانوں کا راج ہے ۔ جہاں لوگ دھرتی پر بوجھ بن کر بھی اِترا رہے ہیں ۔ جہاں دلائل کی جگہ اونچی آواز اور چیخوں سے بات کی جاتی ہے ۔ جہاں انسان خدا بن بیٹھے ہیں ۔
ہمارے معاشرے کی آج یہ بدنما اور بھدی تصویر ہمارے چہروں پر پڑی منافقت کی داستان گو ہے ۔ ذرا سوچئے کیا اُس میرج ہال میں موجود افراد مسلمان نہیں تھے ؟ کیا وہ ایک خدا ، قرآن پاک اور آخری نبیﷺ پر ایمان نہ رکھتے تھے ۔ پھر کیا وجہ کہ کلمہ گو ہونے کے باوجود اُنہیں اپنی موت یاد رہی نہ آخرت۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’جب لوگ علم کا اظہار کریں گے اور عمل ضائع کریں گے ، زبانی کلامی محبت کا اظہار تو کریں گے مگر دلوں میں بغض و کینہ رکھیں گے اور رشتوں ، ناطوں کو توڑیں گے اور اللہ تعالیٰ اُن کو لعنت کا مستحق بنا دے گا اور اُن کو اندھا بہرا بنا دے گا۔ ‘‘
ٓٓآج کیا ہم اندھے بہرے نہیں ہو چکے ۔ پتو کی میرج ہال میں اندھے بہروں کا ہجوم تھا۔ دلوں میں اتنی سختی تو کبھی نہ دیکھی تھی ۔ کوئی ملال ، کوئی تشنگی ، کوئی افسوس ، کوئی رنجیدگی ، کوئی پچھتاوا ، کوئی دکھ یا غم ایک لمحے کے لیے بھی اُن سنگدلوں کے دل سے دامن گیرنہ ہوا۔اہل علم ، اہل فکر اور اہل نظر کو سوچنا ہوگا کہ سیالکوٹ کا واقعہ ، باپ کے ہاتھوں چند دنوں کی بیٹی کا قتل، اب پتوکی سانحہ ، کیا اس طرح کے واقعات کا تسلسل خدا کے خاموش عذاب کی خاموش دستک تو نہیں ۔
خدا ہمیں معاف کرے !

جواب دیں

Back to top button