Column

ارکین، ووٹ اور پارٹی ….. علی حسن

علی حسن

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ان کے تین بڑے مخالفین کی جانب سے طویل عرصے تک جدوجہد کے بعد قومی اسمبلی میں دا خل کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ تحریک دائر کرنے والوں کا خیال ہے کہ سب کچھ 25 مارچ کو ہو جائے گا اور نتیجہ نکل آئے گا۔ ان کے خیال میں نتیجہ میں وزیر اعظم عمران خان گھر چلے جائیں گے۔ اسمبلی کے قوانین اور اسمبلی کے مالک سپیکر اسد قیصر کے اختیار سے واقفیت رکھنے والے کہتے ہیں کہ سپیکر طوالت بھی دے سکتے ہیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کیا ہے کہ منحرف اراکین سے اسے نجات مل سکے اور وہ ان کے خلاف ضابطہ کی کارروائی کر سکے۔ سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد سے پہلے سیاسی جلسے روکنے کے لیے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جبکہ جسٹس منیب اختر 2 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ سپیکر کو 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا گیا۔آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن کے اندر اجلاس بلانا ہوتا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کے سبب کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہ جائے،ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔اپوزیشن کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ سپیکر آئین کے خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ 14 دن سے زیادہ تاخیر کرنے کا سپیکر کے پاس کوئی استحقاق نہیں،عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔ انہوںنے کہا کہ رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی،عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو،ہم زیادہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتے، یہ تمام نکات سپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

بنچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے سے متعلق ہے، آرٹیکل 17 کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں،آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 (2) کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بینظیربھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے،ایک انفرادی ووٹ کو سیاسی جماعت کے بجائے کیسے گنا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ اراکین اسمبلی جس کو چاہیں ووٹ ڈالیں،بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اخترکی آبزرویشن رکاوٹ بن سکتی ہے،سوال یہی ہے کہ ذاتی پسند نا پسند پارٹی موقف سے مختلف ہوسکتی یا نہیں؟ جسٹس منیب اختر وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ تمام اراکین اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، وکیل سپریم کورٹ بار آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے؟آرٹیکل 91 کے تحت ارکان سپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔جسٹس منیب نے کہاکہ اگر کوئی ممبر ووٹ ڈالنے جارہا ہوتو کوئی کیسے کہے گا کہ یہ ووٹ ڈالنا ان کا حق نہیں؟ سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟ جسٹس منیب اختر کی یہ آبزرویشن تحریک کی مخالفت کرنے والوں یعنی حکومتی حلقے حوصلہ افزا تصور کر رہے ہیں کہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے،ایک انفرادی ووٹ کو سیاسی جماعت کے بجائے کیسے گنا جاسکتا ہے؟ 25 مارچ کے اجلاس میں ایک رکن کے انتقال کی تعزیت کے بعد اجلاس کتنے روز ملتوی کیا جاتا ہے ، اس کا انحصار سپیکر پر ہے۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر بھی رہے گی اور کوشش کرے گی کہ عمران خان کو وقت مل جائے تاکہ وہ پس پردہ عوامل سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا ہے کہ ” پاکستان کے مقابلے پر چند کرپٹ خاندان ہیں۔ اگلے چند دن پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔ عمران خان کے نام پر ملے ووٹ کی بنیاد پر کچھ لوگ اپنی حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کو واپس آصف علی زرداری، شریف خاندان اور فضل الرحمان کے تاریک دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں“۔

یہ بحث تو امکانی طور پر 25 مارچ یا اس کے بعد تک جاری رہے گی۔ آپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں جو سوشل میڈیا پر بھی گشت کر چکا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ” یہ 1917 کی بات ہے عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنر ل سٹا نلی ماودے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا۔ جنرل چرواہے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مترجم سے کہا ان سے کہہ دو کہ جنرل تمہیں ایک پاونڈ دے گا بدلے میں تمہیں اپنے کتے کو ذبح کرنا ہوگا۔ کتا چرواہے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے یہ اس کی بکریاں چراتا ہے،دور گئے ریوڑ کو واپس لاتا ہے،درندوں کے حملوں سے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے،لیکن پاونڈ کی مالیت توآدھا ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے، چرواہے نے یہ سوچا اس کے چہرے پر لالچی مسکراہٹ پھیل گئی،وہ کتا پکڑ لایا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کر دیا۔ جنرل نے چرواہے سے کہا اگر تم اس کی کھال بھی اتار دو میں تمہیں ایک اور پاونڈ دینے کو تیار ہوں،چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی،جنرل نے کہا میں مزید ایک اور پاونڈ دینے کے لئے تیار ہوں اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو، چرواہے نے فوری یہ آفر بھی قبول کرلی جنرل چرواہے کو تین پاونڈ دے کر چلتا بنا۔ جنرل چند قدم آگے گئے کہ اسے پیچھے سے چرواہے کی آواز سنائی دی وہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا جنرل اگر میں کتے کا گوشت کھا لوں آپ مجھے ایک اور پاونڈ دیں گے؟جنرل نے انکار میں سر ہلایا اور کہا کہ میں صرف تمہاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا،تم نے صرف تین پاونڈ کے لیے اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا اس کی کھال اتار دی، اس کے ٹکڑے کیے اور چوتھے پاونڈ کے لیے اسے کھانے کے لیے بھی تیار ہو،اور یہی چیز مجھے یہاں چاہیے ۔ پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں لہٰذا تمہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔آج اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لیے اپنی سب سے قیمتی اور اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں۔ یہ واقعہ ڈاکٹر علی الوردی کی عربی کتاب ”لمحات اجتماعیہ من تاریخ العراق“ میں درج ہے۔ اسی سے ماخوذ کر کے سوشل میڈیا پر رکھا گیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر قربان کرنا کتنا نقصان دہ اور تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے یہ تو قوم کے سوچنے کا کام ہے۔

ایک اور واقعہ زیادہ ہی توجہ طلب ہے ، جب چنگیز خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اس نے عوام کو تحفظ کی دعوت دی کہ اگر اپنے اپنے ہتھیار جمع کرادیںتو انہیں تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ عوام اس مسئلہ پر دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈلوانے کے بعد بھی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تو ہم نہتے اپنا دفاع کس طرح کر سکیںگے۔ ہتھیار ڈالنے کا حامی گروہ سمجھتا تھا کہ اعلان کیا گیا ہے تو تحفظ دیا جائے گا۔ اس لیے انہوں نے ہتھیار جمع کرادیے۔ اس کے بعد چنگیز خان نے ہتھیار نہ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کی اور انہیں ڈھیر کرنے کے بعد ہتھیار ڈالنے والوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم اپنے ہی وطن کا دفاع کرنا نہیں چاہتے ہو تو تمہیں کون تحفظ فراہم کر ے گا۔

جواب دیں

Back to top button